0
Tuesday 9 Apr 2019 17:30

لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنا اچھا اقدام ہے!

لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنا اچھا اقدام ہے!
رپورٹ: ایس علی حیدر

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ضم شده قبائلی اضلاع میں تعینات لیویز اور خاصہ دار فورس کے تحفظات دور کرنے کیلئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کو کامیابی ملی ہے۔ وزیراعلٰی کے مشیر برائے قبائلی علاقہ جات اجمل وزیر کی سربراہی میں انسپکٹر جنرل پولیس اور ہوم سیکرٹری پر مشتمل کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔ لیویز اور خاصہ داروں نے تحفظات دور ہوتے ہی جاری احتجاج ختم کر دیا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے خصوصی کمیٹی کی سفارشات تسلیم کرتے ہوئے لیویز اور خاصہ داروں کو پولیس میں ضم کر دیا ہے، اب وہ خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ بن گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے لیویز اور خاصہ داروں کی تنخواہیں پولیس کے برابر کرنے، انہیں پنشن سمیت پولیس کی حاصل تمام سہولیات اور مراعات دینے کی منظوری دی ہے۔ وزیراعلٰی محمود خان نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران لیویز اور خاصہ دار فورس کو محکمہ پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دینے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد لیویز اور خاصہ داروں کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا تھا، لیویز اور خاصہ داروں کا خیال تھا کہ انضمام کے بعد انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا، تاہم صوبائی حکومت نے لیویز اور خاصہ داروں کے احتجاج کا نوٹس لیا اور ان کے احتجاج پر حکومت نے انہیں پولیس کے اختیارات تفویض کر دیئے۔

اب تو صوبائی حکومت نے لیویز اور خاصہ داروں کو باقاعدہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ضم کر دیا ہے۔ اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نے 4 ارب روپے مختص کئے ہیں، اسوقت ضم شده قبائلی اضلاع میں 28 ہزار لیویز اور خاصہ دار فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیویز کی تنخواہیں خاصہ داروں کی نسبت زیادہ ہیں، تاہم انہیں پولیس کے برابر مراعات حاصل نہیں تھیں، قبائلی اضلاع میں خاصہ داروں کی تنخواہیں قلیل ہیں، انہیں پنشن اور دوسری مراعات سے محروم رکھا گیا ہے۔ اب صوبائی حکومت نے خاصہ داروں کو بھی پولیس کے برابر مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلٰی کے مشیر برائے قبائلی علاقہ جات اجمل خان وزیر کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے چند دنوں میں بہت بڑا کام کیا۔ وزیراعلٰی محمود خان کی جانب سے کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرکے انہیں عملی جامہ پہنانے سے لیویز اور خاصہ داروں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے لیویز اور خاصہ دار فورس کے تحفظات دور ہوتے ہی قبائلی اضلاع میں نئے تعینات ہونے والے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز (ڈی پی اوز) نے اپنے عہدوں کا چارج سمبھال لیا۔ 5 اپریل میں 2019ء کو انسپکٹر جنرل پولیس محمد نعیم خان اور چیف سیکرٹری محمد سلیم خان سمیت سرکاری اعلٰی افسران نے جب ضلع خیبر کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو قبائلی ضلع خیبر پہنچنے پر ان کا لیویز اور خاصہ داروں نے شاندار استقبال کیا۔

قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد لیویز اور خاصہ داروں کو پولیس میں ضم کرنے کا اقدام قابل ستائش ہے۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کے 28 ہزار افراد کی ملازمتوں کو تحفظ دینا اچھا اقدام ہے۔ صوبائی حکومت نے جس حکمت عملی سے لیویز اور خاصہ دار فورس کا مسئلہ حل کیا اور ان کی ملازمتیں جس طرح محفوظ بنائیں، اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ صوبائی حکومت نے 28 ہزار لیویز اور خاصہ داروں کی نہ صرف ملازمتیں محفوظ کی ہیں بلکہ انکی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے، جسکے باعث 28 ہزار خاندانوں کو فاقہ کشی سے بچا لیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنیکی زیادہ مخالفت بیوروکریسی نے کی، اب قبائلی اضلاع میں لیویز اور خاصہ دار ڈپٹی کمشنرز کے ماتحت نہیں ہونگے بلکہ وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بن گئے۔ اب وہ ڈی پی او کے ماتحت کام کرینگے، قبائلی اضلاع میں لیویز اور خاصہ دار فوس کو محکمہ پولیس میں ضم کرنے کے بعد اب ڈپٹی کمشنروں کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں۔ چیک پوسٹوں اور دوسرے مقامات پر لیویز اور خاصہ داروں کی تعیناتی کا اختیار ڈی پی اوز کو مل گیا۔

پاک افغان سرحد طورخم، کرم میں پاک افغان سرحد خرلاچی اور جنوبی وزیرستان میں پاک افغان سرحد انگور اڈہ میں لیویز اور خاصہ داروں کی تعیناتی کا اختیار ڈپٹی کمشنروں سے لے لیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ قبائلی اضلاع میں لیویز اور خاصہ داروں کو پولیس میں ضم کرنے کی مخالفت ہو رہی تھی۔ اب قبائلی اضلاع میں نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے، اختیارات کے بے تاج بادشاہ پولیٹیکل ایجنٹس کے بعد ڈپٹی کمشنروں کو حاصل اختیارات بھی محدود ہوگئے۔ لیویز اور خاصہ داروں کے تحفظات دور ہونے کے بعد قبائلی اضلاع میں امن و امان کی تمام تر ذمہ داری پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کر دی گئی۔ ڈپٹی کمشنروں کو حاصل اختیارات ڈی پی اوز کو منتقل ہوگئے، محکمہ پولیس کی ذمہ داریوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اب انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل انسپکٹرز، ڈی آئی جیز اور ڈی پی اوز کو امن و امان قائم رکھنے کی اضافی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں ہیں۔ قبائلی اضلاع میں محکمہ پولیس کے اعلٰی حکام کو مربوط اور موثر حکمت عملی اپنانی ہوگی، حکومت کے حالیہ فیصلے سے خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 787765
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش