0
Tuesday 9 Apr 2019 22:50

جناب! ایک تاریخ آپکے پڑوس میں بھی لکھی جا رہی ہے

جناب! ایک تاریخ آپکے پڑوس میں بھی لکھی جا رہی ہے
تحریر: عمران خان

ہم جو خود کو اشرف المخلوقات قرار دینے پہ بضد ہیں اور اترائے اترائے پھرتے ہیں، تدبیر و تدبر میں اس چڑیا کے درجے سے بھی پست ہیں کہ جو نار نمرود کو بجھانے کیلئے قطرہ بھر پانی چونچ میں لئے جا رہی تھی۔ سوال یہ تھا کہ ’’تیرا معمولی سا پانی اس آگ کے سامنے کیا وقعت رکھتا ہے۔‘‘ جواب یہ تھا کہ ’’جانتی ہوں یہ معمولی پانی نار نمرود کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب بھی آگ بجھانے والوں کی فہرست مرتب ہوگی تو اس میں میرا نام شامل ہوگا۔‘‘ وہ چڑیا بھی تاریخ کے پنوں کی اہمیت و حیثیت سمجھتی تھی، جانتی تھی کہ اس آگ کے ساتھ دنیا ختم نہیں ہو جائے گی، نہ ہی ابراہیم کے تمام تر ماننے والے ختم ہو جائیں گے۔ جس کی اہمیت و حیثیت سے ہم ناواقف ہیں، ایسی ایک تاریخ ہمارے پڑوس میں آج لکھی جا رہی ہے۔ ایک دو شہر نہیں بلکہ تقریباً نصف ایران سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ شدید بارشوں اور ندی نالوں، دریاؤں اور ڈیموں کے بھر جانے کے بعد ایران کے 31 میں سے 15 صوبے سیلابی پانی کی زد میں ہیں۔ 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہزاروں زخمی اور بے گھر ہیں۔

سیلابی پانی اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔ ہزاروں افراد ایسے مقامات پہ تاحال پھنسے ہوئے ہیں کہ انہیں وہاں سے فقط ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ سیلابی پانی کا رخ موڑنے، بڑی آبادیوں کو تباہی سے بچانے اور بعض آبادیوں سے پانی کے جلد اخراج کیلئے حکومت کو کئی پلوں، سڑکوں، پٹڑیوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانا پڑا۔ تمام حکومتی ادارے، عسکری، نیم عسکری، سول، نجی اداروں سمیت یونیورسٹیز، مدارس، کالجز اور سکولوں کے طلباء امدادی کارروائیوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ اس حقیقت سے بھی ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ برادر دوست پڑوسی ملک پہ مصیبت کی یہ گھڑی عارضی ہے۔ کوئی ان کی مدد کرے یا نہ کرے، مشکل یا آسانی سے وہ اپنی لاشوں کی تدفین بھی خود کرلیں گے۔ پانی میں پھنسے خاندانوں کو بھی نکال لیں گے۔ بھوک اور غذائیت کی کمی کے شکار افراد اور بچوں کو تاخیر سے یا کم مقدار میں ہی سہی کھانا بھی میسر آجائے گا۔ کیچڑ سے لبریز قصبے، دیہات، شہر بھی بالآخر خشک ہوجائیں گے۔ پینے کا صاف پانی بھی بحال ہوجائیگا۔

مشکلات جلد یا بدیر ختم ہوں گی اور زندگی کا پہیہ پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائیگا، تاہم اس تمام معاملے میں ایرانی قوم کے دل و دماغ پہ ہر اس قوم، ملک یا اداروں کا نام ضرور نقش ہو جائیگا کہ جنہوں نے مصیبت میں کمی کیلئے ان کی عملی مدد کی یا مصیبت کی اس گھڑی میں بھی ان کے مصائب اور تکالیف میں اضافے کا سامان کیا یا پھر تماشائی بین بنکر سر ہلا کر داد دینے یا فقط تالی بجانے پہ اکتفا کیا۔ نہ تو ایرانی قوم یہ بھول پائے گی کہ جس وقت وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما تھے تو اس وقت کس طرح امریکہ نے ہلال احمر کے اکاونٹ منجمد کرا کر سیلاب زدگان کی امدادی سرگرمیوں کو مفلوج کرنے کی غیر انسانی حرکت کی۔ نہ ہی یہ بھول پائیں گے کہ جب وہ ہنگامی حالات سے دوچار تھے تو ان کی فوج سپاہ پاسداران کو امریکہ نے دہشتگرد قرار دیدیا اور نہ ہی کبھی ان امریکی آلہ کاروں کو بھلا پائے گی کہ جنہوں نے ان امریکی اقدامات کا خیر مقدم کیا۔ 2019ء کے سیلاب کی تاریخ میں جہاں امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کی کارستانیاں دہرائی جائیں گی، وہاں ترکی، عراق، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جانب سے پہنچنے والی پہلی امدادی کھیپ کو بھی ایرانی تاریخ کبھی نہیں بھلائے گی۔

سوال یہ ہے کہ پڑوسی ہونے کے ناطے ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے ساتھ کہ جنہوں نے امریکہ کے غیر انسانی اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے یا ان کے ساتھ کہ جنہوں نے سیلاب زدگان کی امدادی سامان کی ترسیل میں پہل کی ہے۔ یا ہم تاحال اظہار افسوس میں سر بھی ہلا رہے ہیں اور داد و تحسین کیلئے تالیاں بھی بجا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ہم ایران میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ تاحال سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم قوم سے پوچھ رہے تھے یا عالمی برادری کو بتا رہے تھے۔ جناب مدد کیلئے تیار ہیں تو بسم اللہ کیجئے، فقط زبانی کلامی مدد کا اعادہ چہ معنی دارد۔ قدرتی آفات کی ہماری تاریخ میں تو ایسے مواقع پہ کبھی بھی پڑوسی برادر ملک کسی بھی طرح کی مدد سے پیچھے نہیں رہا۔ ایران کے حالیہ سیلاب کے حوالے سے ہمارا نام کہیں نہ کہیں درج تو ہونا ہے۔ یہ انحصار بھی ہمارے اوپر ہے کہ ہم نے اپنا نام کہاں درج کرانا ہے۔

ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ پڑوسیوں سے مثالی تعلقات کے ضمن میں ہماری سابقہ شہرت کیسی ہے۔؟ نائن الیون سے پہلے تک عوامی سطح پہ افغانوں کے ساتھ جو تھوڑے بہت تعلقات قائم تھے، امریکی یلغار کے بعد ان کا حکومتی و عوامی سطح پہ جنازہ نکل گیا۔ وجہ محض اتنی کہ افغانوں نے اپنی تاریخ میں رقم کر لیا کہ جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا تھا تو پڑوسی ملک پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن خلیج ہے کہ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ گرچہ ایران کی صورت حال افغانستان سے کہیں مختلف اور الگ نوعیت کی ہے، مگر دونوں ممالک کے عوام تو دیکھ رہے ہیں کہ مصیبت کی گھڑی میں کون کتنا کام آرہا ہے۔ ہمارے پاس ایران کے سیلاب زدگان کیلئے امدادی آپریشن شروع نہ کرنے کے شائد کئی حیلے بہانے ہوں، عین ممکن ہے کہ ہمارے پاس امدادی آپریشن شروع کرنے کے کئی راستے بھی موجود ہیں، مگر عمل کا دار و مدار تو نیت پہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایران کے سیلاب زدگان کی مدد کی نیت رکھتے ہیں۔ اگر ہاں تو فلاحی اور مددگار تنظیموں کے کیمپ میں اتنی خاموشی کیوں ہے۔؟

وزیراعظم تاحال فقط مدد کیلئے آمادگی کا اعلان کرنے کی حد تک ہی کیوں محدود ہیں۔ سیاسی جماعتیں بالخصوص شیعہ سیاسی جماعتیں جو جلسوں اور دھرنوں میں خم ٹھونک کر میدان میں ہوتی ہیں، وہ بیان بازی کے دائرے تک کیوں کھڑی ہیں اور اگر خدانخواستہ ان سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہماری نیت میں ہی شامل نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پڑوسی تبدیل کرنے کا کوئی آپشن موجود ہے۔؟ گرچہ امریکی تائید سے جاری بھارت و اسرائیل کے مشترکہ ایجنڈے میں سرفہرست یہی ہے کہ دونوں ممالک ایران اور پاکستان کا جغرافیہ تبدیل کیا جائے اور دونوں کے درمیان میں ایک ایسی تیسری دیوار کھڑی کی جائے کہ جو دونوں ممالک کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کاٹ کر رکھ دے، اسی ایجنڈے کے تحت بلوچستان میں اس وقت سب سے زیادہ غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں اس ایجنڈے کے تخلیق کاروں (امریکہ، بھارت، اسرائیل) اور ان کے آلہ کاروں (۔۔) کا ساتھ دینا چاہیئے یا ان سازشوں کے خلاف مشترکہ طور پر عملی کوششیں کرنی چاہیئے۔؟

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ جتنی ضرورت سیلاب زدگان کو ہماری امداد کی ہے، امیج بلڈنگ اور پڑوسی ممالک میں عوامی سطح پہ نرم گوشوں کی پیدوار کیلئے کہیں زیادہ ضرورت ہمیں ریلیف آپریشنز شروع کرنے کی ہے۔ خارجی سطح پہ ہمیں جو حالات و مسائل درپیش ہیں، وہ بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ نرم راستوں سے ہم پڑوسی ممالک کے عوام تک اپنا پرامن اور انسان دوست پیغام پہنچائیں۔ ویسے بھی مولانا صاحب وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سے یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ آپ کا پڑوسی عیسائی تھا، یہودی تھا یا کافر تھا، مگر یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ وہ بھوکا تو نہیں تھا۔؟ وہ پیاسا تو نہیں تھا۔؟ وہ کسی مصیبت میں مبتلا تو نہیں تھا۔؟ آپ سرکاری سطح پہ ایران کے جتنے بھی منکر ہو جائیں، مگر ایک حق تو اس سے چاہ کر بھی نہیں چھین سکتے، پڑوسی ہونے کا حق۔ ویسے امریکہ ’’بہادر‘‘ یہی حق چھیننے کے درپے ہے۔ اب آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کس کا ساتھ دیتے ہیں، یوں بھی پڑوس میں تاریخ تو لکھی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 787808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش