0
Wednesday 10 Apr 2019 17:30

سپاہ پاسداران پر امریکی پابندیاں۔۔۔۔ مضمرات اور اثرات

سپاہ پاسداران پر امریکی پابندیاں۔۔۔۔ مضمرات اور اثرات
تحریر: ثاقب اکبر
 
ایران کی خصوصی انقلابی فورس جو پاسداران انقلاب اسلامی کے نام سے موسوم ہے اور جسے 1979ء کے انقلاب کے فوری بعد بانی انقلاب امام خمینی نے قائم کیا تھا، پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ تو پرانا ہے، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک تازہ ترین اعلان میں اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد تنظیم کہا ہے۔ اس فیصلے کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ وائٹ ہاﺅس کے اعلان کے مطابق پاسداران انقلاب عالمی سطح پر ایران کی دہشت گردی کی مہم پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد قرار دینے کا تازہ ترین امریکی فیصلہ نسبتاً نیا معلوم ہوتا ہے، لیکن دنیا کی مختلف افواج پر طرح طرح کی پابندیوں کا امریکی سلسلہ نیا نہیں۔ بہت سے ملکوں پر مختلف اسلحوں کی فروخت پر پابندیاں آج بھی نافذ ہیں، جن میں چین جیسا بڑا ملک بھی شامل ہے۔

پاکستان تو کئی دہائیوں سے امریکی پابندیوں اور دھمکیوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ مختلف فیصلوں سے پاکستان کو اقتصادی ترقی اور دفاعی صلاحیت کے حصول سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں برسر اقتدار آئے ہیں، پاکستان کو ایسی ایسی دھمکیاں دی گئی ہیں، جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ پاکستان کی فوج کو بدمعاش فوج (Rogue Army) قرار دے کر مغربی اخبارات میں کئی مضامین سپرد قلم کیے گئے ہیں۔ مثلاً 5 مئی 2011ء کے فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کی سرخی یوں تھی:Pakistan’s rogue army runs a shattered state. پاکستان کی بدمعاش فوج ایک لڑکھڑاتی ہوئی ریاست کو چلا رہی ہے۔
اس کی ضمنی سرخی کچھ یوں تھی:Danger is of a military shamed and distrusted abroad while increasingly more destructive at home. ایک ایسی فوج جو عالمی سطح پر شرم آور اور ناقابل اعتبار ہے، جبکہ اندرون ملک اس کا وجود زیادہ تخریبی ہوتا جا رہا ہے۔
 
مغربی دنیا کے اخبارات پاک فوج کے خلاف ایسے مضامین سے بھرے پڑے ہیں، جن کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور جب ضرورت پڑے تو اس کی فوج کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینا ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا ایک مقصد پاک فوج کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے دباﺅ میں لانا بھی رہا ہے۔ پاکستان کی مایہ ناز انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف بھی ایسا عالمی پراپیگنڈا وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں سامنے آنے والے میموگیٹ اسکینڈل کے پیچھے بھی پاک فوج کو کمزور اور بدنام کرنے کی بدنیتی شامل رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کے غداروں کو اپنی سرزمین پر پروان چڑھاتا اور ان سے اپنے استعماری مقاصد کے لیے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔
 
امریکا اس سے پہلے عراق کی الحشد الشعبی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کرچکا ہے، جس نے عراق کے بہت بڑے علاقے کو داعش سے نجات دلانے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا اور آج یہ بھی عراق کی دفاعی افواج کا قانونی اور سرکاری حصہ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے سعودی عرب اور اسرائیل کا دباﺅ بھی رہا ہے۔ بعید نہیں کہ آئندہ جلد اسے بھی اسی طرح غیر قانونی اور دہشت گرد قرار دے دیا جائے، جیسے سپاہ پاسداران کو قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب کی طرف سے حماس، اخوان المسلمین اور حزب اللہ کو بھی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ عام طور پر پوری دنیا میں امریکا کے حالیہ فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تاہم اسرائیل اور سعودی عرب نے اس امریکی فیصلے کی بھی حمایت کی ہے، جس کے خلاف خود امریکا کے اندر نہایت اہم اداروں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی وزارت دفاع کے کچھ حکام اور فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل بوڈنفرڈ نے اس فیصلے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکی فوجیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق سی آئی اے نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
 
یہ بات نہایت اہم ہے کہ یہ فیصلہ ان دنوں سامنے آیا ہے، جب ایران میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا ہوا ہے اور ایران کے بیشتر صوبے زیرآب ہیں۔ عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سپاہ پاسداران اور دیگر ادارے شب و روز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایران پر شدید اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے سیلاب زدگان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عالمی امداد فراہم کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے، لیکن انسانی حقوق کے چیمپیئن امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف یکے بعد دیگرے افسوسناک اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض عالمی مبصرین کی رائے میں اس فیصلے کی ٹائمنگز کو اسرائیل کے اندر جاری عام انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ٹرمپ کے محبوب صہیونی راہنما بنیامین نیتن یاہو کو انتخابات میں تقویت پہنچانا ہے۔ اس سے پہلے مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ انھیں مضبوط کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کرچکے ہیں، جن میں بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ تازہ ترین خبروں کے مطابق اس فیصلے نے بنیامین نیتن یاہو کی کامیابی میں یقینی طور پر کردار ادا کیا ہے۔
 
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سپاہ پاسداران کو علاقے کے وہ ممالک اپنا محسن قرار دیتے ہیں، جنھوں نے داعش کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ اس سلسلے میں عراق اور شام کی طرف سے امریکی فیصلے کی مخالفت کو بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے۔ عراق کے وزیر خارجہ محمد علی الحکیم نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے خلاف عائد کردہ یک طرفہ پابندیوں کو قبول نہیں کرے گا۔ عراق کی حزب اللہ کے ترجمان جعفر الحسینی نے اس فیصلے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ عراق کی مزاحمتی قوتیں سپاہ پاسداران کے ساتھ کھڑی ہیں۔ دمشق کی طرف سے سپاہ پاسداران کے خلاف امریکی فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی حاکمیت کے خلاف آشکار تجاوز قرار دیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران کے خلاف امریکا کی غیر اعلانیہ اور غیر ذمہ دارانہ جنگ قابض اسرائیلی رجیم کی حمایت کے لیے ہے۔
 
چین نے بھی امریکی فیصلے کی مخالفت کی ہے اور چین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ بہت سوں کی رائے میں سپاہ پاسداران ایران جو ایک سرکاری فوجی تنظیم ہے، کو دہشت گرد قرار دینے سے مشرق وسطیٰ کے حالات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ فلسطین کے پیپلز فرنٹ فار فریڈم نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ حرکت جہاد اسلامی فلسطین نے بھی اس امریکی فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا خود دہشت گردی کے اصلی حامیوں میں سے ہے اور امریکا کی سیاست نے عالمی امن کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسپوتنک کے مطابق ترکی اور قطر نے بھی سپاہ پاسداران کے خلاف امریکی اقدام کی مخالفت کی ہے۔ اس سلسلے میں ترک وزیر خارجہ مولود چاﺅش اوغلو اور قطری وزیر خارجہ عبدالرحمن آل ثانی نے انقرہ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کوئی ملک بھی کسی دوسرے ملک کے مسلح افواج کو دہشت گرد قرار نہیں دے سکتا۔
 
ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیت المقدس کے بارے میں امریکی فیصلے کی طرح اس فیصلے کو بھی دنیا میں عموماً اور خطے کے ممالک میں خصوصاً پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ ایران میں داخلی طور پر بھی اس فیصلے کے خلاف بھرپور ردعمل سامنے آیا ہے۔ چنانچہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عالمی استکبار اور امریکا اپنے کینے، عداوت اور شکستوں کا مداوا اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر کرنا چاہتا ہے، جس کا سب سے بڑا ہدف اور عمل دہشت گردی کا مقابلہ رہا ہے۔ انھوں نے امریکا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ دہشت گرد گروہوں کو قوموں کے خلاف استعمال کرو اور دعویٰ یہ کرتے ہوئے کہ تم دہشتگردی کے مخالف ہو، حالانکہ تم خود عالمی دہشتگردی کا سرغنہ ہو۔ ایران کی قومی اسمبلی کے گذشتہ روز کے اجلاس میں منتخب نمائندوں نے سپاہ پاسداران کی وردی پہن کر اجلاس میں شرکت کی اور ان سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ ایران کی شورائے اسلامی مرگ بر امریکا کے نعروں سے گونجتی رہی۔ ایران کی قومی اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ امریکا کے اس فیصلے کا جواب اسی کے انداز میں دیا جائے گا۔
 
یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل نوازی میں بہت بے چین اور بے تاب ہیں۔ وہ ایسے تیز رفتار اقدامات کیے چلے جا رہے ہیں، جنھیں نافقط عالمی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی بلکہ داخلی طور پر بھی جن کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس کا سلسلہ ایران اور دیگر پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے سے امریکا کے یک طرفہ انخلا سے شروع ہوتا ہے۔ اس فیصلے کو بھی چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے غلط قرار دیا اور انھوں نے ایران کے ساتھ اپنے تجارتی روابط کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف راستے اختیار کیے۔ ایران کے لیے یقینی طور پر اس سے کچھ مشکلات میں اضافہ ہوگا، لیکن ایرانی قیادت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انھوں نے تمام تر داخلی ترقی پابندیوں کے نتیجہ میں ہی کی ہے۔ علامہ اقبال کا پیغام بھی ان حالات میں یہی ہے:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
خبر کا کوڈ : 787990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش