8
Thursday 11 Apr 2019 02:24

پاکستان کی امداد برائے سیلاب زدہ ایران

پاکستان کی امداد برائے سیلاب زدہ ایران
تحریر: عرفان علی

ایک سینیئر صحافی دوست نے مجھے ان الفاظ کے ساتھ مطلع کیا ہے کہ آپکا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک انگریزی اخبار کی خبر کا لنک بھی ارسال کیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے ایران کے سیلاب زدگان کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دو حصوں پر مشتمل 32 ٹن کا امدادی سامان بھیجا ہے۔ اس میں پانچ سو خیمے، تین ہزار تین سو کمبل اور ایمرجنسی طبی امداد کے لئے سامان شامل ہے۔ پہلا حصہ پہلے ہی ایران کے صوبہ خوزستان کے صوبائی صدر مقام اہواز بھیجا جاچکا تھا۔ یہ ہے حکومت پاکستان کی طرف سے عملی مدد کا آغاز اور اس کا کریڈٹ ان تمام پاکستانیوں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے مختلف فورمز استعمال کرکے حکومت پاکستان کی بے حسی اور لاتعلقی پر شدید تنقید کرکے ان پر دباؤ بڑھایا اور یاد دلایا کہ ایران نے جس طرح پاکستان کے زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کی تھی، کم از کم اس احسان کا ہی بدلہ اتار دیا جائے۔ البتہ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملت شریف پاکستان کے غیر حکومتی حلقوں نے اس مرتبہ حکومت سے پہلے پاکستانی قوم کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے امداد نہ صرف جمع کرنے میں پہل کی بلکہ پہنچانے میں بھی مدد کی اور ان پاکستانیوں میں بھی ہمیشہ کی طرح جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے معجزہ گر روحانی انقلابی بیٹوں نے سبقت حاصل کرلی۔

ان جوانوں کی پس پردہ کوششوں کے باوجود بزرگان عملی مدد سے گریزاں رہے تو چار اپریل کی سہ پہر کو ہم اس موضوع کو عوام کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔ چند گھنٹے بھی نہ گذرے تھے کہ تذبذب کے شکار لوگوں کے اعلانات جاری ہوئے، بزرگان کی اپیلیں سامنے آئیں اور یوں ایک ماحول بنا کہ کم از کم یہ مسئلہ عوامی سطح پر پوری پاکستانی قوم تک جا پہنچا اور سبھی متوجہ ہوئے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ شفقت شیرازی کے پیغامات انکے حامیوں نے نشر کئے۔ پوری دنیا تک پاکستانی قوم کی طرف سے ایک پیغام علامہ مفتی گلزار نعیمی صاحب کا بھی گیا ہے، جو جماعت اہل حرم پاکستان کے سربراہ ہیں اور وہ بھی سیلاب سے متاثرہ ملت ایران کی مدد کے لئے میدان عمل میں پیش پیش ہیں۔

ایک طرف پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایک دیہی ضلع جیکب آباد میں نماز جمعہ کے بعد سیلاب زدہ متاثرہ ایرانی بھائیوں کے لئے امداد جمع کی گئی تو دوسری طرف ملتان میں بھی اسی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جوانوں نے باقاعدہ امداد جمع کرنے کا آغاز کیا اور اسی تنظیم کی مرکزی قیادت نے لاہور میں باقاعدہ امدادی کیمپ لگا دیا۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے عارف رضا نے بغیر انتظار کے اپنے علاقے میں امدادی کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔ ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے علامہ سید آغا علی رضوی خود امدادی کیمپ پر بیٹھ کر امداد جمع کر رہے ہیں۔ امامیہ ڈزاسٹر منیجمنٹ سیل نے بھی امدادی کیمپ لگایا ہے۔ شیعہ علماء کاؤنسل کے محترم لیاقت حسین نے بتایا کہ انہیں علامہ ساجد نقوی صاحب کی ہدایت ہے کہ وہ شعبہ قم و مشہد کو متحرک کرتے ہوئے وہاں براہ راست امداد کریں۔ شفقت شیرازی صوبہ لرستان پہنچے اور قریبی شہر سے محدود سہی لیکن امدادی سامان کو پیکٹس کی شکل میں لے کر ایک متاثرہ علاقے میں جاکر یہ امداد تقسیم کرکے آئے۔

سوشل میڈیا پر اس اہم ایشو کو اٹھا کر اور خود متاثرہ علاقوں میں جاکر پی ایچ ڈی اسکالر سید ابن حسن نے جو بروقت کردار ادا کیا، اس نے ہم پاکستانیوں کو ملت ایران کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا، البتہ وہ کسی کے معاون نہیں ہیں، اگر ایک تنظیم نے انکو یہ نیا عہدہ اپنی جاری کردہ خبر میں دے دیا ہے تو اس پر ہم دونوں ہی نے خوب انجوائے کیا ہے۔ صرف یہ چند دانے ہی نہیں ہیں بلکہ ایران میں مقیم پاکستانی طالب علم حتیٰ کہ دینی حوزوی طلاب بھی سیلاب زدہ ایرانی علاقوں میں مختلف ٹولیاں بناکر امدادی کارروائی میں پاکستانی قوم کی نمائندگی کرنے میں پیش پیش ہیں اور یہ سب حکومتی نمائندگی کے علاوہ ہے۔ تاخیر کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔

پاکستانیوں کی نمائندگی ان جوانوں نے بھی بھرپور انداز میں کی ہے اور تاحال کر رہے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان، ایرانی ترین ہمسایہ کا ایک فورم بنا رکھا ہے اور وہ ہم سارے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں سے عطیات جمع کرکے سیلاب سے متاثرہ ایرانیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یقیناً جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، اصغریہ سے تعلق رکھنے والے بھی ان کوششوں میں شریک ہیں اور انہیں بھی چاہیئے کہ اپنی کوششوں سے عوام الناس کو بھی آگاہ کریں۔ البتہ امدادی سامان یا عطیات دینے والے پاکستانیوں سے گذارش ہے کہ وہ صرف ایسے افراد یا تنظیموں کے ذریعے یہ امداد بھیجیں کہ جن پر انہیں اعتماد ہو اور جنہیں وہ ذاتی طور پر جانتے ہوں یا انکے قابل اعتماد افراد کی طرف سے تصدیق کی جائے۔ آپ ہر صورت میں ذاتی طور پر اسکو یقینی بنائیں کہ درست افراد یا تنظیم کے توسط سے آپ مدد کر رہے ہیں۔

ہمارے دوست سینیئر صحافی اور بعض دیگر جو مجھے ذاتی طور پر مطلع کر رہے ہیں، اسکا سبب یہ ہے کہ اس ناچیز نے اپنے ذاتی فورمز پر بھی اس معاملے پر صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ بعض سفارتکاروں، تاجر رہنماؤں، وزراء، سیاستدانوں اور سینیئر صحافیوں کے سامنے صرف ایک سوال کیا تھا کہ کیوں ہم پاکستانی سیلاب زدہ ایرانی قوم کی مدد سے گریزاں ہیں، جبکہ انہوں نے تو سیلاب زدہ پاکستانیوں کی بھرپور مدد کی تھی، اس پر سبھی حیران، پریشان تھے کہ حکومت پاکستان امداد میں اتنی تاخیر سے کیوں کام لے رہی ہے؟ انکا فیڈ بیک مثبت تھا اور ہم سبھی جانتے تھے کہ کون سے ممالک کا دباؤ ہے، جو ہماری حکومت پوری قوم کا امیج خراب کرنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس حقیر کو کہا گیا کہ آپکا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ خیر، عوام کے غیظ و غضب کو حکمرانوں نے محسوس کیا اور تاخیر سے ہی سہی، مدد کا آغاز کیا ہے، اب اس مدد کو جاری رہنا چاہیئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے رابطہ اور پھر امداد کا اعلان اور دفتر خارجہ کا یہ اپڈیٹ کہ دو امدادی شپمنٹ ایران بھیجے جاچکے ہیں، یہ خوش آئند ہے اور اس سے انسانیت دوست پاکستانی قوم کی ترجمانی ہوئی ہے۔

پاکستانی قوم کے یہ جوان اور خاص طور پر بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کے روحانی بیٹے ان توفیقات خیر پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے کہ احسان فراموشی کا جو طعنہ دیا جاسکتا تھا، وہ کم از کم اب نہیں دیا جا سکے گا۔ اب توجہ اس پر رہے کہ اس امدادی سلسلے کو سیلاب سے متاثرہ ایرانیوں کی مکمل بحالی تک جاری رکھا جائے۔ کریڈٹ کی بحث کو ترک کریں، کیونکہ انیس مارچ سے چار اپریل کی سہ پہر تک کی انکی خاموشی پر تنقید بنتی تھی، اسی لئے پچھلی تحریر میں ایسا کیا گیا۔ مثبت تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ اگر آپ چار اپریل کی بجائے انیس مارچ کو ہی تعزیتی و ہمدردی کا پیغام جاری کر دیتے اور اس کے بعد قدم بہ قدم عملی مدد کا ماحول بناتے تو وزیراعظم نے جو اعلان سات اپریل کو کیا ہے، یہ دس بارہ دن قبل ہی جاری ہو جاتا اور یہ امداد جو اب پہنچی ہے، یہ بھی مارچ کے آخری ہفتے میں ہی پہنچا دی جاتی۔

یقیناً حکومت پر دباؤ ہے، اگر انصافین حکومت نیک کام کرے گی تو پوری قوم ساتھ دے گی، لیکن اگر دباؤ ڈالنے والوں کو دوست اور اتحادی قرار دے گی تو قوم مخالفت بھی کرے گی۔ ہم کسی بھی تیسرے ملک کی وجہ سے برادر پڑوسی، مومن، مسلمان انقلابی ملک ایران کو مخالف اور دشمن نہیں بنا سکتے اور ہم دو ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کی خواہش رکھنے والا کوئی بھی تیسرا ملک ہم پاکستانیوں کی نظر میں پاکستان کا دشمن ہے، دوست نہیں کیونکہ ایران نے کبھی پاکستان کو کسی ملک سے تعلق ختم کرنے یا کم کرنے کا نہیں کہا ہے، یہ فرمائشی پروگرام جن کا ہے، حکومت پاکستان کی تاخیر کو انہی کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے اور اس تاخیر نے پاکستان کا امیج خراب کیا، دنیا میں منفی تاثر گیا۔ عالم پناہ! ہماری ناراضگی بنتی تھی!

پاکستانی قوم کا اپنے برادر پڑوسی دوست ملک ایران کو یہ پیغام ہے کہ آپ اس مصیبت کی گھڑی میں تنہا نہیں ہیں، یہ ملت، اسکے جوان اور بزرگان سبھی آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ خود اپنے اپنے علاقوں میں خود بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ وہاں زیر تعلیم پاکستانی جوان بھی آپ کی مدد کے لئے بنفس نفیس موجود ہیں۔ پاکستان کے سفارتی حکام جو تہران اور مشہد میں تعینات ہیں، وہ پاکستانی قوم کو ایرانی سیلاب، نقصانات اور مطلوبہ امداد کی تفصیلات سے آگاہ کریں اور حکومت پاکستان کو تجاویز بھی دیں اور ایرانیوں کی اگر کوئی شکایات ہیں یا وہ تعریف کر رہے ہیں، دونوں صورتوں میں پاکستانی قوم کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

اسی طرح ایران کے سفارتی حکام جو اسلام آباد، پنڈی، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ہیں، یہ کام انکی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بھی حکومت پاکستان کو بھی اور ملت شریف پاکستان کو بھی روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کریں، امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے ہمارے اور ان کے سفارتی حکام میں باقاعدہ رابطہ چینل قائم کیا جائے۔ چند روز قبل خبر شایع ہوئی تھی کہ ایران کے کوئٹہ میں قائم قونصلیٹ کا بینک اکاؤنٹ بند کر دیا گیا ہے اور وجوہات سے مطلع نہیں کیا گیا ہے، یہ خبر بھی تشویشناک ہے، کم از کم پاکستان میں ایران کے ساتھ وہ غیر قانونی و غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیئے، جو امریکا اور اسکے اتحادیوں نے اپنا رکھا ہے۔ حکومت پاکستان نے ایران کے لئے امدادی سامان بھیج کر اچھا کام کیا ہے، لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی پر شاباش نہیں دی جاسکتی۔ اس پر پھر کبھی لکھیں گے!
خبر کا کوڈ : 788048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش