0
Tuesday 9 Apr 2019 08:54

سپاہ پاسداران کو دہشتگرد قرار دینا امریکہ کی ایک اور حماقت

سپاہ پاسداران کو دہشتگرد قرار دینا امریکہ کی ایک اور حماقت
تحریر: ایس ایم شاہ

حق اور باطل کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت اور الہیٰ وعدہ ہے کہ استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں فتح ہمیشہ حق والوں کی مقدر  ہے۔ ایران میں 1979ء کے انقلاب اسلامی کے بعد سے دشمنوں کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس انقلاب کو ختم کیا جائے۔ ایران کے انقلاب اسلامی کی ان چار دہائیوں میں شاید ہی کوئی سال ایسا ہو کہ جس میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے ان پر کوئی پابندی نہ لگائی ہو۔ آئے روز ان پابندیوں میں شدت آتی چلی جا رہی ہے اور امریکی صدر کے بقول "ایران پر جو اقتصادی پابندی عائد کر دی گئی ہے، وہ تاریخ کی سخت ترین پابندی ہے۔" امام جمعہ تہران آیت اللہ احمد خاتمی کے بقول "اقتصادی پابندیاں ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہم پر سب سے پہلی اقتصادی پابندی 7 محرم الحرام 61 ہجری کو لگی تھی اور آج تک اسی کا تسلسل ہے۔ اب بھی خدا کی تدبیر دشمن کی تدبیر پر غالب ہے۔"

اس کام کے لیے اربوں کھربوں ڈالر بھی خرچ  کئے جا چکے ہیں۔ یہود و ہنود تو پہلے ہی سے اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے کمر بستہ تھے، لیکن انہی استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کے درمیان بھی پھوٹ ڈالنے کے لیے اس انقلاب کو مسلکی رنگ دیکر بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، بدقسمتی سے بہت سارے مسلمان بھی اس حوالے سے دھوکہ کھا چکے ہیں، بعض نے تو عناد کی بنیاد پر دشمن کے اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ انقلاب کے بانی امام خمینی (رہ) سے لیکر آج تک جب یہ انقلاب اپنے چالیس سال مکمل کرکے کامیابی کے ساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور اس کشتی انقلاب کے ناخدا اس وقت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ہیں۔ اس مدت مدید میں ان کے کسی بھی سربراہ نے اس کو مسلکی انقلاب  قرار نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایران میں موجود اہل تشیع کے علاوہ نہ فقط دیگر  مسالک پہلے سے کہیں زیادہ پرامن اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ یہاں کے غیر مسلم باسی بھی مکمل طور پر بین الاقوامی شہری حقوق سے بہرہ مند ہیں۔

دنیا بھر کے مظلوموں کی داد رسی اور ظالموں کی بھرپور مخالفت ان کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل اہل سنت برادری کی آبادی پر مشتمل فلسطین کو سب سے زیادہ سپورٹ کرنے والا ایران ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ فلسطین میں ایک چھوٹی سی شیعہ ذیلی تنظیم وجود میں آئی تھی تو اس کے سربراہ کو بھی حماس نے گرفتار کر لیا اور انہیں کام کرنے سے روک دیا، پھر بھی وہاں کی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ ایران کا تعاون بھرپور طریقے سے اب بھی جاری و ساری ہے۔ کیا اسرائیل کے ساتھ  ایران کا کوئی سرحدی تنازعہ ہے؟ ہرگز ایسا نہیں؛ کیونکہ ان کی ایک انچ سرحد بھی آپس میں نہیں ملتی۔ پس معلوم ہوا کہ یہ کوئی مسلکی معاملہ نہیں اور نہ ہی کوئی ملکی سرحدی معاملہ ہے بلکہ یہ پورے عالم اسلام کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ اس وجہ سے مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں، تاکہ مسلمانوں کے قبلہ اول کو غاصب اسرائیل کے ہاتھوں سے نجات دلا سکیں اور اسرائیل کے نیل تا فرات کے نعرے کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکا جاسکے۔

70 فیصد سے زیادہ اہل سنت برادری پر مشتمل یمنی مسلمانوں کی یہ لوگ بھرپور حمایت کر رہے ہیں، سنی اکثریتی ملک شام میں داعش اور اس کی سہولت کاروں کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے، امریکی فوج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے بھی ایران بھرپور کردار ادا کر رہا ہے، کیونکہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی ہم سے زیادہ ایران کے لیے خطرناک ہے، کیونکہ پوری دنیا میں یہ دونوں ممالک برسرپیکار ہیں اور افغانستان کے ساتھ ایران کی طویل سرحدیں ملی ہوئی ہیں، جس کے باعث امریکہ کا افغانستان میں ہونا ان کے لیے ہر وقت خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے تحت کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت ایک لازمی امر ہے۔ اسی طرح ایران بھی ان کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور اس سال 5 فروری کو کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں ہماری طرح ایران کے اندر بھی باقاعدہ بین الاقوامی پروگرامز منعقد ہوئے۔ جس کی مثال ہمیں کسی اور اسلامی ملک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

خلاصہ یہ کہ جہاں کہیں بھی ایران نے مسلمانوں کی حمایت کی ہے تو عراق کے علاوہ سب کے سب اہل سنت اکثریتی ممالک ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی دشمن نے یہ پروپیگنڈا کئے رکھا ہے کہ ایران ہر جگہ مسلکی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی تعجب آمیز ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ شیعہ ملک ہونے کے اعتبار سے برسرپیکار ہے تو یہاں شیعہ 40 سال پہلے بھی  آباد تھے اور یہی مذہبی مراسم اس وقت بھی انجام دیتے تھے، لیکن اس وقت امریکہ ان کا نہ فقط دشمن نہیں تھا بلکہ شاہی دور میں امریکہ ایران کا بہت ہی قریبی دوست شمار ہوتا تھا۔ لہذا امریکہ ایران کے لوگوں کے مذہب کی بنیاد پر دشمن نہیں، بلکہ پوری دنیا میں تسلط جمانے کے امریکی خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کی وجہ سے ہے۔ امریکہ عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی ظلم کرتا ہے تو ایران سب سے پہلے اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

امریکہ کے جنگی جنون میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے القدس بریگیڈ، لبنان میں 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش دینے والی اور حماس کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے والی حزب اللہ  اور فلسطین کی سب سے مضبوط مزاحمتی تحریک حماس کو تو پہلے ہی دہشتگرد قرار دیا جاچکا ہے، گذشتہ سال تمام تر بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کو پامال کرتے ہوئے اپنی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ اور گذشتہ ماہ شام کے جولان کے پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا ہے۔ ایک طرف ایرانی قوم قدرتی آفات کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہے اور ایک باغیرت ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ابھی تک ان کے کسی بھی ذمہ دار نے کسی سے بھی مدد طلب نہیں کی تو دوسری طرف سے ان کی حمایت اور مشکل کی اس گھڑی میں انسان دوستی کی بنیاد پر دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے بڑھنے کے بجائے اب ان کے لیے مزید مشکلات میں اضافہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ہلال احمر کے بینک اکاونٹس کو بھی امریکا نے منجمد کر دیئے ہے۔

امریکہ جس کو امام خمینی (رہ) نے سب سے بڑا شیطان قرار دیا تھا اور یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ہم امریکا کی ناک زمین پر رگڑ کر دم لیں گے، آج بھی ان کی تمام جامع مساجد کے محراب و منبر پر امریکہ کے خلاف نعرے درج ہوتے ہیں۔ اسی نعرے نے ان کے بچے بچے کے اندر امریکی مخالفت کا شعور پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی کامیابی نہیں ملی۔ ہر جگہ وہ رسوا ہوتا جا رہا ہے۔ لبنان میں اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا اور غاصب اسرائیل کو لبنانیوں کی زمینیں خالی کرنا پڑی، افغانستان میں کہیں بھی اسے کامیابی نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا سرمایہ لگانے کے بعد اب امریکی صدر وہاں سے بھی دم دبا کر فرار ہونے کا اعلان کرچکا ہے۔ عراق میں 7 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اب وہاں اس کا راستہ مکمل بند ہوچکا ہے اور گذشتہ ماہ امریکی صدر کے چوری چھپے اپنے فوجیوں سے ملاقات کے لیے آنے پر وہاں کی پارلینمٹ نے ہنگامی جلسہ بلا کر تمام پارلینمٹ اراکین نے متفقہ طور پر اسے بین الاقوامی قوانین کی  خلاف ورزی اور ان کے ملک کی توہین قرار دے کر مذمتی قرارداد منظور کر دی اور وہاں کے وزیراعظم نے امریکی صدر سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد جب ایرانی صدر حسن روحانی نے وہاں کا دورہ کیا تو ان کا تاریخی استقبال کیا گیا، یہ ہے ایران کی کامیابی۔

شام میں مدت مدید تک امریکہ اور اس کے 80 سے زیادہ حلیف ممالک نے وہاں کے قانونی صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانے اور وہاں داعش کی حکومت قائم کرکے اسرائیل کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہاں سے بھی ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ کی دور اندیشی اور جنگی مہارت نے انہیں مار بھگایا اور ایران کے وزیر خارجہ نے جب شام کا حال ہی میں دورہ کیا تو وہاں پر ایک ملک کے وزیراعظم سے بھی زیادہ ان کا شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا۔ اسی طرح  گذشتہ ماہ شام کے صدر بشارالاسد کو تہران کا دورہ کراکر انھوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ شام اور عراق میں استعماری طاقتوں کے برخلاف جمہوری اسلامی ایران نے فتح حاصل کر لی ہے۔ وہ اسرائیل جو پہلے ببانگ دہل یہ اعلان کرتا تھا کہ تمام اسلامی ممالک کا ذرہ ذرہ اسرائیل کے جدید اسلحہ کی رینج پر ہے، آج وہی اسرائیل ہر طرف سے محاصرے میں ہے اور ابھی تک دنیا میں اپنی قانونی حیثیت کو منوانے سے قاصر ہے۔

 اب جب عنقریب نام نہاد اسرائیل کے اندر انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ہر جگہ اسرائیل کی پسپائی کے باعث نیتن یاہو بری طرح بدنام ہوچکا ہے۔ اب متوقع الیکشن میں اسے پھر آگے لانے کے لیے امریکی صدر نے ایک بار پھر یہودیوں کے اشارے پر   ایران کی سب سے پروفیشنل فوج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشتگرد قرار دیا ہے۔ اس موقع پر بہت ہی تعجب آور بات یہ ہے کہ اسی وقت ملت ایران نے اتحاد و ہمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ اراکین سمیت دیگر تمام عہدیداروں نے بھی  سپاہ پاسداران انقلاب کی وردی پہن کر ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا، ان کا یہ کہنا تھا کہ ہماری ملت کا ہر فرد پاسدار اور انقلاب کا محافظ ہے اور جواب میں ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی باقاعدہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عالمی دہشگرد اور ان کی فوج کو دہشتگرد فوج قرار دیا۔ ممکن ہے کہ اگر اسے بے لگام چھوڑ کے رکھا گیا تو ایک وقت ایسا آجائے کہ وہ ہماری پاک فوج کے خلاف بھی زبان درازی سے باز نہ رہے۔ لہذا ہماری وزارت خارجہ کو بھی اس موقع پر امریکہ کے اس آمرانہ فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر بھرپور مذمت کرنا چاہیئے۔

 اب امریکہ کے اس احمقانہ فیصلے کے بعد سے سپاہ پاسداران کی ایران کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر مقبولیت میں مزید اضافہ سامنے آرہا ہے۔ یاد رہے کہ سپاہ پاسداران کے القدس بریگیڈ اور اس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو جب  امریکہ نے دہشگرد قرار دیا تھا تو اس کے بعد دنیا کے گوش و کنار میں رہنے والے بھی قاسم سلیمانی کی شخصیت اور القدس بریگیڈ کی کارکردگی سے پہلے سے کہیں زیادہ آشنا ہوگئے تھے اور ان کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ سامنے آیا تھا۔ علاوہ ازیں اسی القدس بریگیڈ نے شام و عراق سے امریکہ اور اس کے حواریوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا۔ اب اس نے پورے سپاہ پاسدان کو  اپنی من مانی کے تحت بین الاقوامی قوانین کے برخلاف دہشتگردی کا عنوان دیا ہے، یہ بھی پوری دنیا میں سپاہ پاسداران کی مقبولیت کا سبب بنے گا۔ امریکہ اپنی ایسی حرکتوں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنے مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا چاہتا ہے۔ ایسی نامعقول حرکتوں سے مزاحمتی تحریک مزید مضبوط، سپاہ پاسداران انقلاب مزید سرخرو اور امریکہ و اسرائیل اپنی ان حماقتوں کے باعث دنیا بھر میں مزید رسوا ہوتے رہیں گے اور آخر میں نابودی ان کا مقدر ہے۔ آخر میں ہم سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
خبر کا کوڈ : 788295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش