0
Sunday 14 Apr 2019 19:52

آیت تطہیر پر ایک اجمالی نظر

آیت تطہیر پر ایک اجمالی نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

قرآن مجید کی سورہ  احزاب آیہ ۳۳ میں اللہ تعالی نے اہل بیت علیہم السلام کو ہر قسم کی پلیدگی اور رجس سے پاک رکھنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ شیعہ علماء آئمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ‏ تَطْهِيرًا" اللہ کا ارادہ تو بس یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔1 کلمہ (رجس) سے مراد ہر قسم کی فکری اور عملی پلیدی منجملہ شرک،کفر،نفاق اور جہل و گناہ پر مشتمل ہے۔ چونکہ کلمہ رجس کا متعلق حذف ہوا ہے اور ساتھ میں الف و لام استغراق بھی داخل ہوئی ہے جو جنس اور طبیعت رجس کے نفی ہونے کا فائدہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جملہ "و یطّہرکم تطھیراً" بطور تاکید آیا ہے، اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ "لیذھب عنکم الرجّس ۔۔" ہر قسم کی معنوی آلودگی اور گناہ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ، ان تمام پلیدیوں کو نفی کیا ہے پس اللہ تعالی نے اہل بیت اطہار کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھنے کا ارداہ کیا ہے جس کا لازمہ عصمت ہے۔

حضرت عائشہ سے مروی ہے۔2 کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیر کساء علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو جمع کیا تھا۔ یہی بات ترمذی اور مسند احمد میں بھی ہے۔ تفسیر طبری میں ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جناب ام سلمہ نے زیر کساء آنے کی درخواست کی تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے لیکن چادر میں تمہاری گنجائش نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ آیت ازواج پیغمبر کے تذکرہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے تو ان کے خارج کرنے اور دیگر افراد کے مراد لینے کا جواز کیا ہے؟ لیکن اس کا واضح جواب یہ ہے کہ:
 اولا: سیاق سند نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ قرآن کوئی تصنیف یا تالیف نہیں ہے کہ اس میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے۔ اس میں بےشمار مقامات ایسے ہیں جہاں ایک تذکرہ کے بعد دوسرا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر پلٹ کر وہیں پہنچ جاتی ہے۔
ثانیا: آیت تطہیر کا عنوان اہلبیت ہے، جو ازواج اور نساء سے مختلف عنوان ہے۔
ثالثا: یہ کہ روایات صریحہ و صحیحہ  کے ہوتے ہوئے سیاق سے استدلال کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے۔

یاد رہے کہ کلمہ (إنما) حصر اور قصر کے لئے استعمال ہوتا ہے، لہٰذا خداوند متعال کا اہل بیت علیہم السلام کی نسبت جو ارادہ ہے وہ ایک خاص ارادہٴطہارت ہے، یعنی یہاں ارادہ تکوینی مراد ہے نہ کہ ارادہ تشریعی، کیونکہ ارادہٴتشریعی کے ذریعے جو طہارت حاصل ہوتی ہے وہ کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی جیسے وضو، غسل اور تیمم کے احکام کے بیان کے بعد ارشاد ہوتا ہے، "مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَ لَكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُم"۔ 3خدا تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں دینا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ اسی طرح زکات کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے، "خُذْ مِنْ أَمْوَالهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِم بهِا" 4 پیغمبر، آپ انکے اموال میں سے زکوۃ لے لیجئے تاکہ آپ اس کے ذریعے انہیں پاک و پاکیزہ بنائیں۔ ارادہ ٴتکوینی اور ارادہ ٴتشریعی کے درمیان فرق یہ ہے کہ خداوند متعال نے ارادہٴ تشریعی کے ذریعے جو چیزیں انسانوں سے چاہی ہیں انہیں انسان کے اختیار میں رکھا ہے اور ممکن ہے کہ انسان اس چیز کا انتخاب نہ کرے۔ بالفاظ دیگر یعنی ارادہٴ تشریعی کے برعکس کام کرنا ممکن ہے۔

بعبارت دیگر ارادہٴ تشریعی وہی ہدایت تشریعی ہے، جہاں ہادی  ہدایت کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے لیکن چونکہ انسان مختار و آزاد خلق ہوا ہے اس لئے ممکن ہے کہ وہ خوشبختی کا راستہ انتخاب کرے یا بدبختی کا راستہ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے، "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا"5 یقینا ہم نے اسے راستے کی نشاندہی کی ہے۔ اب چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے۔ ارادہٴتکوینی اور ہدایت تکوینی ایصال الی المطلوب ہے، جس میں تخلف ممکن نہیں ہے جیسے "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُون"۔6 اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارداہ کرے کہ ہو جا تو وہ شے ہو جاتی ہے۔ مذکورہ مباحث سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:
الف: خدا نے اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے ہر قسم کی آلودگیوں کو ارادہٴتکوینی کے ذریعے دور فرمایا ہے۔
ب: خدا کا ارداہٴ تکوینی حتما انجام پاتا ہے، چونکہ خطا اور معصیت معنوی آلودگی شمار ہوتی ہیں، لہٰذا اہلبیت پیغمبر علیہم السلام ہر قسم کے گناہوں سے مبرا و منزہ ہیں۔ بنابریں ہم مندرجہ ذیل نکات کے ذریعہ اہلبیت  علیہم السلام کے مصداق کو معین کر سکتے ہیں۔

1۔ مذاہب اسلامی میں سے کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج اور آپ ؐ کے خاندان کے دوسرے افراد سوائےحضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور انکے شوہر اور فرزندوں کے عصمت کے درجے پر فائز نہیں۔ شیعہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا اور ان کے ہمسر اور فرزندوں کو معصوم سمجھتے ہیں لہٰذا شیعہ مذہب کے نظرئیے کو قبول نہ کرنے کی صورت میں آیت تطہیر کا کوئی مصداق نہیں ہے اور یہ آیت تطہیر کی دلالت کے برخلاف ہے۔
2۔ آیت تطہیر سے پہلے اور بعد کی آیتیں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مربوط ہیں، چنانچہ ان آیات میں جمع مونث کی ضمیر استعمال ہوئی ہے، جیسے (ان کنتن تردن الله .......) (من یات منکن بفاحشة......) (و قرن فی بیوتکن ..) (واذکرن ما یتلی فی بیوتکن .....) جبکہ آیت تطہیر میں جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جیسے (عنکم ... یطهرکم ..) لہٰذا یہ آیت ازواج پیغمبر پر منطبق نہیں ہو سکتی لیکن یہ شیعوں کے نظریئے کے ساتھ قابل تطبیق ہے، کیونکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے علاوہ باقی افراد (حضرت علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام) سب مذکر ہیں اور یہاں جمع مذکر کی ضمیر کا استعمال ادبی لحاظ سے صحیح ہے، کیونکہ ان کی اکثریت مذکر ہے۔

3۔ آیت تطہیر کی شان نزول میں جتنی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ان میں حضرت علی علیہ السلام ، حضرت زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اہلبیت کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا، کیا میں بھی اہلبیت میں سے ہوں اور آیت تطہیر کے حکم میں شامل ہوں؟ آپ ؐنے فرمایا، "انک الی خیر"7 تم راہ راست پر ہو ،لیکن انہیں اہل بیت میں شامل نہیں کیا۔ اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے نقل ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے اور امام حسن، امام حسین، حضرت فاطمہ زہراء اور حضرت علی علیہم السلام چادر کے نیچے موجود تھے۔ اس وقت آپ  ؐنے فرمایا، "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ‏ تَطْهِيرًا" اللہ کا اردہ تو بس یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے، جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔8 اسی طرح آیت تطہیر کے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت زہراءسلام اللہ علیہا، حضرت علی علیہ السلام اور حسنینعلیہماالسلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے میں تقریبا ستر سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں۔ اہلسنت نے تقریبا چالیس احادیث حضرت ام سلمہ، حضرت عائشہ، ابو سعیدخدری، ابن عباس، عبداللہ بن جعفر، وائلہ بن اسقع، حضرت علی علیہ السلام، امام حسنعلیہ السلام اور دوسرے افراد سے نقل کی ہیں۔ اسی طرح شیعہ کتب حدیث میں تقریبا تیس احادیث حضرت علی علیہ السلام ، امام زین العابدینعلیہ السلام، امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام رضا علیہ السلام، ابوذر، ابولیلی، ابو الاسود دوئلی اور دوسرے افراد سے نقل ہوئی ہیں۔
9

4۔ اہلسنت کے بزرگ عالم دین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں "آیت تطہیر" کی تفسیر کرتے ہوئے امام حسن مجتبٰی سے ایک روایت نقل کی ہے اور کہا ہے امام حسن علیہ السلام نے برسر منبر فرمایا ہے۔ "ہم ہی وہ اہلبیت ہیں جن کے حق میں خدا نے آیت تطہیر نازل فرمائی ہے۔ ابن کثیر امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے ایک شامی مرد سے فرمایا، "ہم ہی اہل بیت کا مصداق ہیں"۱۰۔ آیت تطہیر میں ارادہٴ تکوینی مراد ہے اور ارادہ تکوینی میں تخلف ناممکن ہے۔ اسی لئے اہل بیتعلیہم السلام کا ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہونا ایک قطعی اور تخلف ناپذیر امر ہے، لیکن یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت کا غیر اختیاری ہونا ان کے افعال کے غیر اختیاری اور اجباری ہونے پر دلالت کرتا ہے، جو ان کے لئے کمال محسوب نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ارادہ تکوینی سے مراد اہلبیت علیہم السلام کا گناہوں اور دوسری آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہونا ہے لیکن ان کے پاک و پاکیزہ ہونے اور افعال کے اختیاری ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے، کیونکہ عصمت  کے کچھ خاص اسباب ہیں جنہیں خداوند متعال نے آئمہ اطہار علیہم السلام کے اختیار میں دے دیا ہے۔ آئمہ اطہار علیہمالسلام خداوند متعال کی عظمت اور گناہوں کے عواقب و آثار کے بارے میں قطعی علم رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس مخصوص علم کے ذریعے وہ خداوند متعال کی اطاعت کرنے اور گناہوں سے دور رہنے کا ارادہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ رہتے ہیں۔

یہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خداوند متعال یہ مخصوص علم ابتداء میں ہی کسی کو عطا کرے یا یہ کہ بعض اعمال بجا لانے کی بدولت انہیں عطا فرمائے۔ یعنی یہ علم  اکتسابی ہو، کیونکہ جو چیز یہاں اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مقام عصمت آئمہ معصومینعلیہم السلام کی ذات اور حقیقت کو دگرگوں نہیں کرتا اور انسان ہونے کے ناطے ان سے گناہ کا سرزد ہونا ممکن رہتا ہے، لیکن مقام عصمت پر پہنچتے ہی یہ امر ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت پرہیزگار افراد کے اندر بھی قابل ملاحظہ ہے۔ بطور مثال ایک متقی و پرہیزگار انسان کسی کو عمدا قتل نہیں کرتا، یعنی وہ اس قسم کا گناہ انجام دینے کے معاملے میں معصوم ہے، یعنی تقوی کی مضبوط قوت اسے اس کام سے روکتی ہے اگرچہ انسان ہونے کے ناطے اس سے اس قسم  کے افعال کا سرزد ہونا ممکن ہے۔ یا مثلا زہر کے خواص سے اطلاع رکھنے والا ماہر و حذاق طبیب یا شخص کبھی بھی زہریلے مادے کو تناول نہیں کرتا حالانکہ وہ اس زہریلے مادے کو کھا سکتا ہے لیکن اس کا علم اور اس کے فکری اور روحانی آگہی اسے ایسا نہیں کرنے دیتی اور وہ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اس کام سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اسی طرح والدین عام حالت میں کبھی بھی اپنے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے، اس قسم کا کام ان سے سرزد ہونا ممکن نہیں ہے، اگرچہ انسان ہونے کے ناطے اس قسم  کے افعال ان سے سرزد ہو سکتے ہیں لیکن ماں باپ کی محبت اور عواطف انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس قسم کے دلخراش کاموں کا تصور بھی نہ کریں چہ جائیکہ اسے قتل کریں۔11
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ احزاب ،33۔
۲۔ صحیح مسلم ،ج2 ،ص 116 -انوار القرآن ،علامہ ذیشان حیدرجوادی۔
۳۔ مائدہ ،6۔
۴۔ توبہ:103۔
۵۔ انسان،3۔
۶۔ یسین،82 ۔
۷۔ اسباب النزول ،ص 239۔
۸۔صحیح مسلم،24،1813 ،کتاب فضائل الصحابۃ۔
۹۔ آیت تطہیر کی تفسیر جاننے کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعہ کریں:تبیان،ج،8ص 340۔مجمع البیان، ج4،ص357۔المیزان ،ج16،ص309 – 313۔اور کتاب آیۃا لتطہیر، تالیف شیخ محمد مہدی آصفی ۔
۱۰۔ ابن کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج 6، تحقیق: محمدحسین شمس الدین، 1419ق.، ص 371.
۱۱۔المیزان ،ج 11 ،ص163
خبر کا کوڈ : 788620
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش