0
Monday 15 Apr 2019 12:09

کوئٹہ کا علمدار روڈ بنا خون کی علامت

کوئٹہ کا علمدار روڈ بنا خون کی علامت
تحریر: ممتاز ملک

آج سے تقریباً بیس سال پہلے کوئٹہ جانے کا موقع ملا، ڈیرہ نواب صاحب احمد پور شرقیہ کے اسٹیشن سے براستہ چلتن ایکسپریس روانہ ہوا، خان پور، رحیم یار خان، گھوٹکی، پنوں عاقل، روہڑی سکھر ریلوے جنکشن سے پاکستان کے گرم ترین شہروں جیکب آباد اور سبی کو کراس کرتے ہوئے آب گم اور مچھ کے اسٹیشنز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے صبح کے دس بجے کوئٹہ شہر پہنچا۔ جون کا مہینہ تھا، کوئٹہ پہنچتے ہی پنجاب اور سندھ کی سخت گرمی کا احساس جاتا رہا۔ کوئٹہ کی سریاب روڈ سے رکشہ پر بیٹھا اور علمدار روڈ پہنچا۔ چند سرکاری اداروں کے علاقے کو چھوڑ کر باقی پورے کوئٹہ شہر میں سب سے زیادہ صاف ستھرا علاقہ علمدار روڈ کا تھا۔ درجن بھر گلیوں اور محلوں حاجی آباد، حسین آباد، سولہ کنال، نچاری محلہ،حیدر علی سٹریٹ، سید آباد، عباسیہ ٹاؤن اور ہزارہ قبرستان کا علاقہ علمدار روڈ پر مبنی ہے۔ علمدار روڈ کی اہم بات نہ تو آپ کو گلیوں محلوں میں کوڑا کرکٹ ملے گا، جو کہ عام طور پر اسلام آباد سے لے کر پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ڈھیر لگے ہوتے ہیں، کراچی تو عبث بدنام ہوا۔

گورنمنٹ سکولز اور کالجز طلباء اور طالبات سے بھرے ہوئے، پرائیویٹ سکول بھی ہیں لیکن بچوں کی اکثریت گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے، ایک خوبصورت، کفایت شعار اور خوب سیرت لوگوں کی آبادی والی اس روڈ پر یہ ہزارہ برادری کے لوگ تقریباً 1890ء سے 1904ء میں افغانستان سے آکر آباد ہوئے۔ انتہائی محنتی اور کاروبار کے ماہر لوگ ہیں، ترک اور منگول قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، چنگیز خان کی نسل سے ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ چنگیزی بھی لکھواتے ہیں۔ ہوٹلز، دکانیں، گھر صاف شفاف ملیں گے، گھروں میں رہن سہن بہت ہی پیارا۔ جب سکولز میں چھٹی ہوتی ہے تو بچوں اور بچیوں کے کھلکھلاتے چہرے، اجلی وردیاں اور چمکدار جوتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر صفائی پسند ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کو گمان ہوگا کہ آپ تہران، استنبول یا پھر یونان کے کسی گلی محلے میں پہنچ گئے ہیں۔

مجھے 2000ء سے 2010ء تک کوئی پانچ مرتبہ کوئٹہ جانے کا موقع ملا، پاکستان کا پرامن اور خوبصورت شہر کاروبار کے اعتبار سے مغربی ممالک سے آنے والے سامان کی اہم گزر گاہ، خشک میوہ جات جیسے کاجو، اخروٹ، ایرانی پستہ اور بادام کے ساتھ ساتھ چلغوزے کی پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ کوئٹہ شہر کی ہے، پاکستان اور ایرانی کمبل اور قالین کا بہترین کاروبار اسی شہر میں ہوتا ہے۔ انہی سالوں میں ہزارہ قبرستان بھی جانے کا موقع ملا، اس وقت تقریباً چند ایک شہداء کی قبریں تھیں، لیکن بدقسمتی سے اب تو کہتے ہیں کہ وہاں اتنی زیادہ اجتماعی قبریں بنائی گئی ہیں کہ مزید افراد کو دفنانے کی جگہ نہیں رہی۔ لوگوں میں خوف سا پیدا کر دیا گیا ہے، ایک روڈ پر قلعہ نما زندگی گزارنے والی اس تعلیم یافتہ ہزارہ برادری، جس نے پاکستان کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں قابل ترین افراد فراہم کئے ہیں، اسی کا صلہ انہیں آج ان کے پیاروں کی لاشوں سے دیا جا رہا ہے۔

1958ء سے 1966ء تک پاکستان کے کمانڈر ان چیف، مغربی پاکستان اور بلوچستان کے گورنر رہنے والے جنرل محمد موسیٰ خان، ائیر مارشل شربت علی چنگیزی، قومی فٹبال ٹیم کے کپتان رجب علی ہزارہ اور غلام علی ہزارہ، قیوم چنگیزی، اولمپین چمپین شہید سید ابرار حسین اور کراٹوں میں عالمی میڈل جیتنے والے مرد و زن کا تعلق اسی بہادر اور باہمت قوم سے ہے۔ ایسے پرامن اور باکمال لوگوں کی آبادی والی اس بارونق علمدار روڈ کو اب ایک بے گناہ خون کی لائن میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں ہر روز ہر شخص اس خوف کے ساتھ صبح و شام گزار رہا ہے کہ نجانے کب ہمیں موت کی نیند سلا دیا جائے، بڑے بوڑھوں نے وصیتیں لکھی ہوئی ہیں، کوئی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، کوئی پاکستان کے دیگر قدرے پرامن علاقوں میں ہجرت کر گئے ہیں۔

یہ سب کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے، وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف سب نے یقین دہانیوں پر اکتفاء کیا ہے، لیکن کوئی راہ حل نہیں ہے، علمدار روڈ سے ہزار گنجی کی طرف آتے جاتے راستے میں شکلیں پہچان کر مارا جاتا تھا، اب کی بار ایف سی کے پہرے کے سائے میں سبزی منڈی میں بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس دہاڑی داروں اور ریڑھی بانوں کے جسم ریزہ ریزہ ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت بیچاری کو کوئی نہیں مانتا، بوڑھے، جوان، بچے عورتیں کسی کو نہیں چھوڑا گیا، ماں اور بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، لیکن ان کو بھی بسوں سے شناخت کرکے بے دردی سے مارا گیا ہے، ریاست اور ریاستی ادارے اپنے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں، جو کہ ان کا اولین فریضہ تھا۔

نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ ہوا، مسلمانوں سمیت پوری دنیا کے باضمیر اقوام نے اس کی پر زور مذمت کی اور وہاں کی وزیراعظم نے تمام متاثرہ خاندانوں کے ساتھ جاکر ان کی دلجوئی کی اور واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ہم دہشت گرد سے اس کی پہچان چھین لیں گے، اس کا نام نہیں لیں گے آج کے بعد۔، ہمارے وزیراعظم نے بھی جذبات میں آکر فون کر ڈالا اور مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے سلوک کو ایک مثالی قابل تقلید کہا گیا۔ لیکن اب جب اپنے ملک میں مرے ہوئے لوگوں کو بار بار مارا جا رہا ہے تو ہم سب منافقت کی چادر اوڑھ کر خاموش ہوگئے ہیں، جبکہ کافر سے بھی بدتر درجہ جہنم میں منافق کا ہوگا۔ الٹا ان مظلوموں پر انگلیاں اٹھانے کی گھٹیا کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ لوگ احتجاج اور دھرنے شروع کر دیتے ہیں اور کیا کریں، چیخ و پکار بھی نہ کریں۔

آخر کب تک ان دہشت گردوں کی سرپرستی کی جاتی رہے گی۔ عثمان کرد، داؤد بدینی اور رمضان مینگل جیسے سفاک درندے جب تک جیلوں سے رہائی پاتے رہیں گے، کوئٹہ کے سپورٹس گراؤنڈ میں جلسوں میں سرعام نظمیں پڑھی جاتی رہیں گی کہ ہم مصباح کی طرح ٹک ٹک کرکے ایک ایک رنز نہیں بناتے بلکہ سینچری بناتے ہیں، یعنی سو سو لاشیں ایک ساتھ گراتے ہیں، ایسا کب تک ہوتا رہے گا، کب تک ہزارہ برادری کا ناحق خون بہتا رہے گا اور پاکستان کا ایک منفی چہرہ دنیا کے سامنے پیش ہوتا رہے گا اور پھر ہمارا ملک عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل ہو جائے گا، لیکن ہم دہشت گردوں اور انکی سوچ بنانے والوں پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 21 اپریل کو کوئٹہ کا دورہ کریں گے اور نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا افتتاح کرکے ہزارہ برادری سے تعزیت اور پھر وہاں سے ایران کا دورہ کیا جائے گا، تاکہ ایک ہی چکر میں سب کام ہو جائیں، اب کون روز روز کوئٹہ جائے، ہر روز تو یہ ہزارے بیچارے بھی مارے جاتے ہیں۔!!!
خبر کا کوڈ : 788780
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش