QR CodeQR Code

پشاور حیات آباد فیز سیون آپریشن کے حقائق

17 Apr 2019 19:16

اسلام ٹائمز: حیات آباد پولیس ٹاؤن ہے، جہاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدان، بیوروکریٹس اور بزنس کمیونٹی سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ رہائش پذیر ہیں، تاہم بعض لوگوں نے قیمتی بنگلے کرایہ پر دے رکھے ہیں۔ انکے تہہ خانوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان تہہ خانوں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، ماضی میں ان تہہ خانوں میں مغوی افراد رکھے جاتے تھے، حیات آباد میں پولیس مقابلہ پہلا واقعہ نہیں ہے، یہاں کئی دلخراش واقعات رونما ہوچکے ہیں۔


رپورٹ: ایس علی حیدر

تاتارا پولیس اسٹیشن حیات آباد کی حدود میں واقع فیز 7 حیات آباد میں پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں ایلیٹ فورس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر قمر عالم شہید جبکہ پانچ مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے مبینہ دہشت گردوں میں سے ایک کا تعلق جمرود سے ہے جبکہ 20 سالہ خودکش بمبار عمران محمد کا تعلق افغانستان سے ہے۔ گھر میں 7 دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں۔ پولیس کے اعلٰی حکام کے مطابق مارے جانے اور بچ جانے والے دہشت گرد ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اشرف نور کے قتل اور ججوں کی گاڑی پر حملوں سمیت سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ مبینہ دہشت گردوں اور پولیس کے درمیان مقابلہ کے دوران فوج پولیس کی مدد کیلئے پہنچی، ساری رات گزر جانے کے باوجود فوج اور پولیس اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی، منگل کی صبح تک آپریشن مکمل نہیں ہوا۔

حیات آباد کا فیز 7 قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کی سرحد پر واقع ہے، ضلع خیبر اور حیات آباد کے درمیان آمد و رفت انتہائی آسان ہے۔ حیات آباد کے رہائشیوں کا باآسانی جمرود اور ضلع خیبر کے دوسرے علاقوں کو آنا جانا رہتا ہے، اسی طرح ضلع خیبر کے لوگوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مبینہ دہشت گردوں سے مقابلے میں اے ایس آئی قمر عالم کی شہادت ایک افسوناک واقعہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ واقعہ میں 3 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حیات آباد کو سیف سٹی قرار دیا گیا ہے، جس کیلئے پولیس کے ساتھ ساتھ ایک سکیورٹی فورس کا انتظام بھی کیا گیا ہے، جس کے پاس جدید اسلحہ اور گاڑیاں ہیں، جو سیف سٹی پراجیکٹ پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ہر سال سکیورٹی پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، تاہم نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر ہے۔

حیات آباد پولیس ٹاؤن ہے، جہاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدان، بیوروکریٹس اور بزنس کمیونٹی سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ رہائش پذیر ہیں، تاہم بعض لوگوں نے قیمتی بنگلے کرایہ پر دے رکھے ہیں۔ ان کے تہہ خانوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان تہہ خانوں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ ماضی میں ان تہہ خانوں میں مغوی افراد رکھے جاتے تھے۔ حیات آباد میں پولیس مقابلہ پہلا واقعہ نہیں ہے، یہاں کئی دلخراش واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ دہشت گرد حملوں دھماکوں اور خودکش حملوں میں متعدد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب، آپریشن خیبر ون ٹو تھری اور فور کے بعد پشاور میں امن ہوا اور ضلع پشاور نے امن کی چادر اوڑھی تھی۔

حیات آباد میں حالیہ پولیس مقابلہ تشویشناک ہے، تاہم پولیس کی کارروائی سے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ حیات آباد پولیس مقابلہ کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ مقابلے میں بےگناہ افراد بھی مارے جا چکے ہیں، تاہم جنہوں نے ایک دہشت گرد یا اس سے زیادہ دہشت گردوں کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی، وہ بھی دہشت گردوں کے ساتھ جرم میں برابر شریک ہیں، اگر وہ بےگناہ ہوتے تو پولیس پر فائرنگ نہ کرتے اور پولیس کا مقابلہ نہ کرتے۔ پولیس کے ساتھ مقابلہ کرنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مزاحمت کرنے والے دہشت گرد تھے، جو سنگین وارداتوں میں ملوث تھے۔ حیات آباد فیز سیون میں پولیس کا جانی نقصان ہوا ہے، جس پر دکھ ہے، قبل ازیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی قربانیاں لازوال ہیں، جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 789111

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/789111/پشاور-حیات-آباد-فیز-سیون-آپریشن-کے-حقائق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org