0
Friday 19 Apr 2019 15:30

بدقسمت لوگ

بدقسمت لوگ
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

شہر قائد کی خبر ہے، تین دن پہلے ایک ڈیڑھ سالہ بچے کو گولی مار دی گئی، بچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ خالد بیکری سے نکل کر رکشے میں سوار ہو رہی تھی کہ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار پولیس اہلکار چلاتے ہوئے آئے، انہوں نے پستول نکالا اور فائرنگ شروع کر دی، گولی لگنے سے ان کے بیٹے کے سینے سے خون بہنا شروع ہوگیا اور وہ ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ جناح ہسپتال میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مشیر اطلاعات سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ چھ ماہ میں یہ چھٹا یا ساتواں واقعہ ہے۔ بس ٹھہر جایئے، اب گلوبٹ، عابد باکسر یا  راو انور کا ذکر کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، ذکر تو سانحہ ساہیوال کا بھی نہیں کرنا چاہیئے لیکن کیا کریں، سانحہ ساہیوال کے ورثاء کو انصاف کے بجائے تین کروڑ کے چیک تھما دیئے گئے ہیں،  چیک مل گئے ہیں تو ورثا کو شکر کرنا چاہیئے، سنا ہے کہ انہوں نے انصاف انصاف کی رٹ لگا رکھی ہے۔

ایسے ہی بعض نکمے اور فارغ لوگوں نے الٹا یہ شور مچایا ہوا ہے کہ اگر مقتولین دہشت گرد تھے تو چیک کیسے اور اگر دہشت گرد نہیں تھے تو قاتلوں کو سزا کیوں نہیں۱؟ ہمارے نزدیک یہ صرف فضول سوچ ہے اور فضول سوچنا بھی ایک بیماری ہے۔ یہ فضول سوچنے کی بیماری بہت خطرناک ہے، کبھی کبھی جان لیوا بھی ہوسکتی ہے، اگر کوئی سوچنے کی بیماری سے مر جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی موت کی وجوہات نامعلوم ہی ہونگی۔ جب بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر موت کا ذکر آئے گا تو کوئٹہ کی ہزارہ برادری کا بھی تذکرہ کیا جائے گا، ابھی ہمارے صدر مملکت عارف علوی صاحب ہزارہ ٹاون میں نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے شہداء کی فاتحہ پڑھ کر واپس گئے ہی تھے کہ مکران کو کراچی سے ملانے والی کوسٹل ہائی وے پر تین سے چار مسافر بسوں کو روک کر  شناختی کارڈ چیک کرکے چودہ افراد کو قتل کر دیا گیا۔

یہ خبر گرم ہی تھی کہ اوپر سے یہ خبر بھی آگئی کہ وزیر خزانہ اسد عمر مستعفی ہوچکے ہیں، وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا قلمدان تبدیل کرکے انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر، غلام سرور خان کو وفاقی وزیر ایوی ایشن، اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ، شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے سیفیران، ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو معاون خصوصی برائے وزارت صحت، فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی برائے اطلاعات، ندیم بابر کو معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویزن جبکہ اعظم سواتی کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور بنا دیا گیا ہے۔ اب جیالوں اور متوالوں کو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بحث کے لئے نیا موضوع مل گیا ہے، متوالے اور جیالے ایک دوسرے پر ثابت کر رہے ہیں کہ کابینہ میں تبدیلی ضروری تھی یا نہیں، فلاں صاحب فلاں سے بہتر ہیں یا نہیں، ملک ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑ رہا ہے یا نہیں، ترقی کا پہیہ تیزی کے ساتھ گردش کر رہاہے یا نہیں۔۔۔۔۔

آخر کابینہ کی ایک اہمیت ہے، اس پر بات ہونی چاہیئے اور جہاں تک بات ہے مسنگ پرسن، نمیرہ بیگ، سانحہ ساہیوال، ہزارہ برادری اور مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کرنے کی تو یہ سب تو ہوتا رہتا ہے، یہاں تو لیاقت علی خان جیسے مارے گئے، لیکن کچھ پتہ نہیں چلا، فاطمہ جناح ؒ کو موت آگئی، لیکن موت کی وجوہات مخفی ہی رہیں، بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوگیا، لیکن جدائی کی وجوہات آج بھی نامعلوم ہیں، ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوگیا، مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو  جیسے قتل ہوگئے، کیا کسی کے قاتل پکڑے گئے۔۔۔ اور ابھی چند سال پہلے کراچی میں قائداعظم کی نواسی محترمہ خورشید بیگم کے سترہ سالہ بیٹے سکندر محمد علی کو پولیس نے بغیر کسی وجہ اور مقدمے کے قتل کر دیا  تھا، صرف قتل نہیں کیا بلکہ ہمارےسپوتوں نے یہ بھی ثابت کرنا شروع کر دیا تھا کہ محترمہ خورشید بیگم کا قائداعظم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

محترمہ خورشید بیگم کے بقول ہمارا بیٹا انٹر کا طالب علم تھا، جب 98ء کے رمضان میں سحری کے دوران وہ پراٹھا لینے بازار گیا، وہاں سے پولیس اسے پکڑ کر لے گئی۔ تین دن ہم اسے ڈھونڈتے رہے۔ تھانے میں اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ میرے جوان بیٹے کی لاش گھر پہنچی۔ اس ناانصافی پر کوئی ہمارا مقدمہ درج کرنے والا نہیں تھا۔ نوائے وقت میں ہماری بپتا شائع ہوئی، پھر بریگیڈیئر (ر) شمس الحق قاضی صاحب ہماری مدد کو آئے اور  ہمارے بیٹے کے قتل کا کیس شروع ہوا۔ کئی سال بعد 2006ء میں پانچ پولیس والوں کو سزا سنائی گئی، انہیں پانچ پانچ سال کی سزا دی گئی تھی، مگر وہ سب ضمانت پر رہا ہو کر آزاد گھوم رہے ہیں۔[1] قابلِ ذکر ہے کہ 2018ء میں جب محترمہ خورشید بیگم نے انتقال کیا تو کسی سیاسی شخصیت نے نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت نہیں کی۔

ہاں تو میرے قارئین آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ کابینہ میں تبدیلی کی خبر کے مقابلے میں آپ کی جان و مال کی خبر کی کتنی قدر و قیمت ہے، آپ کو احساس ہوچکا ہوگا کہ آپ بہت جلد ترقی کرنے والے ہیں اور آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اب پاک چائینہ اقتصادی راہداری منصوبے کی بدولت آپ کی تجوریاں بھری دی جائیں گی۔ اپنی قسمت کو کوسنے، رونے دھونے، گلے شکوے کرنے، انصاف مانگنے، روزگار تلاش کرنے، مہنگائی پر آنسو بہانے سے بہتر ہے کہ ہم لوگ رشک کریں، ان لوگوں پر جنہیں خودکش حملوں میں شہید کیا جاتا ہے اور فخر کریں، ان شہیدوں پر جنہیں گاڑیوں سے اتار کر گولی مار دی جاتی ہے، چونکہ قسطوں میں ہر روز مرنے والوں کی نسبت وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں، جو ایک ہی دفعہ مر جاتے ہیں۔ بدقسمت وہ ڈیڑھ سالہ بچہ نہیں جسے گولی مار دی گئی بلکہ بدقسمت اس کے ماں باپ ہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 789501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش