0
Saturday 20 Apr 2019 10:57

بھارت، انتخابات کے بعد مذاکرات کی امید

بھارت، انتخابات کے بعد مذاکرات کی امید
رپورٹ: جے اے رضوی

نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر سہیل محمود نے اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل جو انٹرویو دیا وہ بھارت و پاکستان کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کافی حوصلہ افزاء قرار دیا جاسکتا ہے۔ سہیل محمود نے امید ظاہر کی کہ بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان ضرور مذاکراتی عمل شروع ہوگا کیونکہ اس سے دو طرفہ خدشات اور اختلافات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ خطے میں امن اور تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سفارتکاری کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل سے جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے اور ادھر بھارت کی طرف سے ابھی تک اس پر کسی بھی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ یہاں پوری حکومت پارلیمانی انتخابات میں مصروف ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بھارت و پاکستان کے درمیان بات چیت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت میں انتخابات کے اختتام تک بات چیت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے کیونکہ بھارتی حکومت اس وقت پارلیمانی انتخابات میں مصروف ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر بھارت میں دوبارہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آتی ہے تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات میں پیشرفت ہوسکتی ہے۔ ادھر جموں میں کنٹرول لائن کے مختلف سیکٹروں میں بھارت و پاکستان کی افواج کے درمیان وقفے وقفے سے گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی ہفتے بھارت کے دفاعی ترجمان نے دعوٰی کیا ہے کہ دن بھر پاکستانی رینجرس نے بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا اگرچہ اس دوران کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ سرحدی آبادی محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئی ہے اور تعلیمی ادارے مسلسل بند پڑے ہیں۔ تناؤ و کشیدگی کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں روز مرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔

سرحدی علاقوں میں جو لوگ رہتے ہیں ان کی بھی زندگی ہے، ان کے بچے اس وقت تعلیم سے محروم ہورہے ہیں، کھیتی باڈی نہیں ہورہی ہے۔ سرحدی دیہات میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں غرض جو لوگ سرحدوں کے نزدیک رہتے ہیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہ صورتحال صرف لائن آف کنٹرول کے اس طرف ہی نہیں بلکہ دونوں طرف پائی جاتی ہے۔ جو حال اس طرف سے لوگوں کا ہے، ویسا ہی حال سرحد کے دوسری طرف کے لوگوں کا ہے۔ اس لئے ان حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر بات چیت شروع کی جائے اور 2003ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جو سیز فائر معاہدہ ہوا ہے اس پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ سرحدوں پر گولہ باری کرنے میں کون سا ملک پہل کررہا ہے، اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ بھارت پاکستان پر الزامات عائد کررہا ہے اور پاکستان بھارت پر الزامات لگا رہا ہے۔

بھارت میں بھاجپا اور کانگریس دونوں مرکزی جماعتوں نے اگرچہ بظاہر اپنے اپنے انتخابی منشور میں مذاکرات عمل کا وعدہ دہرایا ہے لیکن انتخابات کے بعد ہی حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امید تو یہی ہے کہ جو بھی پارٹی انتخابات کے بعد برسر اقتدار آئے گی اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ بات چیت و مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔ ہر ایک فرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ مخاصمت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس وقت بھارت کو ناگالینڈ کا بھی مسئلہ حل کرنا ہے اور اگر بھارت ناگالینڈ کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لیتا ہے تو منی پور، اروناچل پردیش اور آسام والے بھی اس کی تاک میں ہیں کہ ناگالینڈ کے بارے میں نئی دہلی کس طرح کا فیصلہ لیتی ہے۔ اس لئے نئی دہلی کو چاہیئے کہ وہ تمام متنازعہ معاملات پر بات چیت کرے اور ان نام نہاد لیڈروں پر لگام کس لی جانی چاہیئے جو اشتعال انگیز بیانات دے کر امن و سلامتی کی فضا کو مکدر کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 789527
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش