QR CodeQR Code

پاک ایران تعلقات اور دہشتگردی کے بڑھتے واقعات

20 Apr 2019 15:19

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے فقط چند دن پہلے بلوچستان میں کئی واقعات کا ہو جانا بہت کچھ بتانے کیلئے کافی ہے۔ پہلے کوئٹہ میں ہزار گنجی کا واقعہ، پھر کوسٹل ہائی وے پر چودہ افراد شہید کر دیئے گئے۔ گذشتہ روز کا ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ٹوئٹ بھی بہت اہم تھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ دہشتگرد اور انکے حامی مسلم ریاستوں کے مضبوط ہوتے تعلقات کو برداشت نہیں کر پا رہے، انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی اور وزیراعظم کے دورے سے قبل ان واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ خطے پر نظر رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان، ایران اور افغانستان کو مسلسل انگیج رکھنا چاہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان تینوں ملکوں کی سرحدوں پر صورتحال بہتر نہیں۔


تحریر: نادر بلوچ

بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے ہر پاکستانی کو مضطرب اور پریشان کر دیا ہے، سانحہ ہزار گنجی کے بعد کوسٹل ہائی پر چودہ افراد کی المناک شہادت کسی سانحہ سے کم نہیں، پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اسلام آباد میں قائم ایرانی سفارتخانہ کو ایک مرسلہ بھیجا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایران کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور سرحد پار لاجسٹک مراکز سے آگاہ کرچکا ہے، پاکستان نے پہلے بھی ایران سے کئی بار کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور معلومات بھی فراہم کیں، لیکن پاکستان کی جانب سے انٹیلی جنس شیئرنگ کے باوجود بدقسمتی سے ایران نے ان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ یہی دکھ اور افسوس ایران کو بھی ہے، جس کا وہ بھی کئی بار اظہار کرچکا ہے۔ مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 18 اپریل کو ایف سی یونیفارم میں ملبوس 15 سے 20 دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں گوادر کے قریب 3 سے 4 بسوں کو روکا، یہ بسیں اورماڑہ سے گوادر کوسٹل ہائی وے پر سفر کر رہی تھیں، جنہیں بوزی ٹاپ کے قریب روکا گیا، دہشت گردوں نے شناخت کے بعد 14 افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کر دیا، شہداء میں 10 جوانوں کا تعلق پاک بحریہ، 3 کا فضائیہ اور ایک کا کوسٹ گارڈ سے تھا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کہا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بزی ٹاپ سانحے میں بلوچ دہشتگرد تنظیم ملوث ہے، بی آر اے ایس گروپ نے اس بزی ٹاپ سانحے کی ذمہ داری قبول کی، جس کے ٹریننگ اور لاجسٹکس کیمپ سرحد پار ایران میں واقع ہیں جبکہ ان کیمپس کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا برادر ملک ہے اور ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں، ایران کو پاکستان کی توقعات سے آگاہ کر دیا گیا ہے، امید ہے ایران ان دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لے گا، ایرانی وزیر خارجہ نے اس واقعے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے جبکہ بی آر اے ایس کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں، افغان بھائیوں سے بھی ایکشن کی توقع کرتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے نئی سدرن کمان تشکیل دی ہے، جس کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے، پاکستان نے اس بارڈر کو مزید سیف بنانے کے لئے 6 اقدامات کئے ہیں اور پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔

اس سے پہلے مارچ میں دہشتگردوں نے زاہدان میں سپاہ پاسداران کی بس کو نشانہ بنایا تھا، جس میں 30 کے قریب سپاہ کے اہلکار شہید ہوگئے تھے، اس سے پہلے ایران کے بارہ سکیورٹی گارڈز اغوا کے گئے تھے، جس کی ذمہ داری پاکستان میں آپریٹ ہونے والے گروپ جیش العدل نامی کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی۔ یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کیا دہشتگرد اتنے طاقتور ہیں یا ان کو شہ حاصل ہے کہ آزادی کے ساتھ دونوں طرف سے سرحد استعمال کر جاتے ہیں، کبھی یہ سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کر لیتے ہیں تو کبھی بسوں پر حملہ کر دیتے ہیں، حتیٰ شناختی کارڈ اور سروس کارڈ دیکھ کر کارروائی انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مکمل اور دقیق معلومات بھی رکھتے ہوتے ہیں۔ کونسی بس کتنے بجے کہاں سے روانہ ہوگی اور اس میں سوار ہونے والے کون ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے فقط چند دن پہلے بلوچستان میں کئی واقعات کا ہو جانا بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔ پہلے کوئٹہ میں ہزار گنجی کا واقعہ، پھر کوسٹل ہائی وے پر چودہ افراد شہید کر دیئے گئے۔ گذشتہ روز کا ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ٹوئٹ بھی بہت اہم تھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ دہشتگرد اور ان کے حامی مسلم ریاستوں کے مضبوط ہوتے تعلقات کو برداشت نہیں کر پا رہے، انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی اور وزیراعظم کے دورے سے قبل ان واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ خطے پر نظر رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان، ایران اور افغانستان کو مسلسل انگیج رکھنا چاہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان تینوں ملکوں کی سرحدوں پر صورتحال بہتر نہیں۔

امریکا جہاں ایران کو مسلسل دباو میں رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے مختلف اقدامات بھی اٹھا رہا ہے، وہ پاکستان کو بھی کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ سی پیک منصوبہ ان طاقتوں کے لیے کسی صورت ہضم ہونے والی شئے نہیں ہے، امریکا پہلی ہی چین کی معیشت کو اپنی سکیورٹی کے لیے چیلنج قرار دے چکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان اور ایران یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کون ہے اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں، لیکن دہشتگردی کے سدباب کے لیے منظم اور مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے، جو باہمی تعلقات کی مضبوطی اور رابطوں کی بہتری سے ہی ممکن ہے۔


خبر کا کوڈ: 789686

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/789686/پاک-ایران-تعلقات-اور-دہشتگردی-کے-بڑھتے-واقعات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org