0
Sunday 21 Apr 2019 20:28

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی کے اسباب و علاج(1)

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی کے اسباب و علاج(1)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

ہم سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات حسرت آیات کے وقت امت کے لیے دو چیزیں چھوڑیں تھیں، 1۔ کتاب اللہ 2۔ اپنی عترت اہلبیت علیہم السلام کہ اسوقت اس کے افراد علی و فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام پر مشتمل تھے۔ یاد رہے کہ دین صرف دو صورتوں میں ہے 1۔ قرآن مجید کہ جو اصولی کتاب ہے 2۔ سنت رسول اللہ کہ جو قرآن مجید کی تفصیل ہے۔ وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت قرآن جمع ہوچکا تھا اور امت کے ہاتھوں میں تھا، لیکن سنت جمع نہیں تھی۔ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود لیا تھا، "انا نحن نزلنا الذکر و نحن لہ لحافظون"، لیکن سنت کی تبلیغ اور حفاطت کا ذمہ دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی عترت اہلبیت علیہم السلام کو بنایا تھا۔ اسلئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن اور عترت اہلبیت کو اپنے پیچھے چھوڑا۔ سنت رسول اللہ کی حفاظت ایک خطرناک کام تھا، کیونکہ منافقین اور ناجائز بادشاہتیں نہیں چاہتی تھیں کہ سنت رسول محفوط رہے، کیونکہ سنت رسول ان کے مفادات سے ٹکراتی تھی۔

حقیقی سنت رسول کے بیان اور لکھنے پر پابندی لگی، پھر جھوٹی سنت بصورت جھوٹی احادیث کا ایک طوفان برپا ہوا، لیکن آئمہ اہلبیت علیہم السلام نے حقیقی سنت رسول کی شمع اپنے ہاتھوں سے کبھی گرنے نہ دی۔ عترت اہلبیت علیہم السلام کا پوری تاریخ اسلامی میں یہی "حقیقی سنت رسول کی حفاظت" جرم رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں یکے بعد دیگرے قتل کیا جاتا رہا ہے، کوئی تلوار کے ذریعے مارا گیا تو کوئی زہر کے ذریعے۔ عترت اہلبیت کے شیعہ یعنی "حامی" وہی رہے ہیں، جو سنت رسول کی حفاظت میں ان کے مددگار تھے۔ تاریخ اسلامی میں یہی جرم شیعہ کا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ جلاوطن ہوئے یا مارے گئے۔ وہ بنی امیہ کے دور میں حضرت ابوذر غفاری ہوں یا پھر بنی امیہ کی فکر کے وارث وہابی بادشاہوں کے دور میں آیت اللہ باقر نمر۔ انقلاب اسلامی کے بعد سے حقیقی سنت رسول اللہ کے محافظین کو 1400 بعد ایک قوت حاصل ہوئی تو قصر بنی امیہ میں ایک بھونچال سا آگیا اور سفیانی قوتیں متحد ہوکر اس شمع سنت رسول کو گل کرنے یا محدود کرنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔

آج جبکہ اورماڑہ بلوچستان میں بسوں سے اتار کر شناخت کرکے 14 محافظین سنت رسول کو مارا گیا ہے، اگر اس جرم میں مارے جانے والوں کی تعداد گنی جائے تو لاکھوں سے تجاوز کر جائے گی۔ ہندستان، پاکستان، شام، عراق، ایران، حجاز (جدید بنی امیہ کی حکومت کا مرکز)، مصر، نائجیریا۔۔۔۔۔۔۔ سفیانی قوتیں پریشان اس امر سے ہیں کہ نہ صرف قتل و غارت سے سنت رسول کے یہ محافظ کمزور نہیں ہوتے بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ شام اور عراق میں شسکت کھانے کے بعد اب ایک دفعہ پھر پاکستان کی باری آئی ہے۔ یزید دوران کے پاکستانی دورے سے اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ حالات کو مدنظر رکھا جائے تو اگلے ہفتوں اور برسوں میں اس میں خطرناک حد تک اضافے کی تمام راہیں ہموار ہیں۔ پاکستان کے اندر یا باہر تمام سفیانی قوتوں کا موقف ایک ہی ہے کہ "ایران شیعت پھیلا رہا ہے"، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ "حقیقی سنت رسول" ہےِ، جس کی خوشبوء 1400 بعد آزاد ہوئی ہے اور ایک دفعہ پھر مشام انسانیت کو معطر کر رہی ہے، جس سے نبی امیہ کی فکر کے جدید وارث وہابییت کے محلات پر زلزلہ طاری ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اموی فکر کے تخت کا تختہ نکل رہا ہے، سفیانی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور ظہور نور الاہی و اشرقت الارض بنور ربھا کی کرنیں چھن چھن کر آ رہی ہیں۔


روح شیعت 
روح تشیع، حقیقی سنت رسول کی علمی و عملی حفاظت ہے۔ حقیقی سنت رسول کی روح آزاد فکری ہے، جو کہ بادشاہت اور آمریت سے متصادم ہے۔ اسی لیے تشیع نے کبھی بھی بادشاہت اور آمریت سے صلح و آشتی نہیں رکھی۔ جب تیسری خلافت کے دور میں بنی امیہ کے گورنر سنت رسول کو ترک کرکے امت پر بادشاہوں کی طرح چھا گئے تو حقیقی سنت رسول بیان کرنے پر سخت پابندیاں لگ گئیں تھیں۔ جن افراد پر سنت رسول بیان کرنے پر پابندی تھی، ان میں حضرت ابوذر بھی شامل تھے۔ ایک دفعہ حج کے موقعہ پر ابوذر حدیث بیان کر رہے تھے تو سپاہی آن پہنچا اور کہا: کیا تم پر پابندی نہیں ہے؟ تو ابوذر نے کہا: لو وضعتم الصمصامة على هذه - وأشار إلى قفاه - ثم ظننت أني أنفذ كلمة سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن تجيزوا علي لأنفذتها.(صحیح بخاری) جب تک تمہاری تلوار میرے اس گلے تک پہنچے اور میں سمجھوں کہ اس بیچ میں نبی اکرم سے جو ایک کلمہ میں نے سنا ہے، وہ بیان کرسکونگا تو بیان کر دونگا۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ بادشاہت اور آمریت کی سنت رسول اور انکے محافظیں سے دشمنی کیوں ہوتی ہے!!

پھر جب سن 60 ہجری میں یزید بادشاہ بن کر امت پر مسلط ہوا تو حقیقی سنت رسول کے محافظ امام حسین علیہ السلام میدان میں آئے اور نظام بادشاہت اور آمریت کو اپنے خون سے غیر اسلامی قرار دے دیا۔ جو لوگ نادانی سے حسین بادشاہ اور علی شہنشاہ کے نعرے لگاتے ہیں، ان کو پتہ ہی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نبی اور امام تو آتا ہی بادشاہتوں اور آمریتوں کے تخت توڑنے کے لیے ہے، پھر وہ خود کیسے بادشاہ اور شہنشاہ بنیں گے؟ یہ روح دین سے ناواقفیت ہے۔ بنی امیہ کی تقریباً ایک صدی پر مشتمل ننگ انسانیت بادشاہت اور ان کے بعد بنی عباس کی اس سے بھی زیادہ تاریک تین صدیاں ایسی ہیں کہ جن میں تشیع کی قیادت اور اس کے پیروکاروں نے سولیاں اپنی پیٹھ پر اٹھائے زندگیاں گذاری ہیں۔ اس دور میں شیعہ کی شناخت یہ جملہ تھا المنتقله دیارھم "خانہ بدوش لوگ"۔ لیکن 334 ہجری میں جب ایک شیعہ دیلمی خاندان نے عباسیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغداد پر اور خراسان کو چھوڑ کر باقی ایران پر قبضہ کیا تو شیعہ افراد کو کچھ سکھ کا سانس لینے کا موقعہ ملا۔ لیکن یہی وہ تاریخ کا موڑ ہے، جہاں سے شیعہ افراد نے اپنے نظریاتی فکر کو چھوڑ کر بادشاہتوں کو قبول کر لیا۔ دیلم کا یہ آل بویہ خاندان شخصی طور پر شیعہ تو تھے لیکن بہرحال بادشاہ اور آمر تھے، جبکہ اب تک شیعت نے ہمیشہ بادشاہوں سے جہاد ہی کیا تھا۔

بیسویں صدی عیسوی تک باقی اسلامی دنیا کی طرح شیعوں پر بھی بادشاہتیں مسلط رہیں اور شیعوں نے بادشاہتوں کے خلاف اپنی بنیادی فکر یعنی جہاد کو ترک کئے رکھا۔ یہ بیسویں صدی کا نصف آخر ہے، جب امام خمینی نے شیعت کو بادشاہت اور آمریت کے خلاف اپنی اصلی جہادی حیثیت بہت مؤثر طریقے سےی اد دلائی اور ایران میں بادشاہت کا تخت تاراج ہوا۔ ساری دنیا نے شیعت کی بادشاہت اور آمریت دشمن روح کو سمجھ لیا، اسی لیے بادشاہتوں نے ملسل اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ یہ روح قائم رہے، اس لیے اب تک قائم ہے۔ جو لوگ شیعت اور امام خمینی کی فکر کی اصلی روح کو سمجھتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ یہ روح اور یہ فکر بادشاہتوں اور آمریتوں کی کسی بھی صورت میں حامی نہیں ہوسکتی۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 789871
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش