0
Friday 26 Apr 2019 15:24

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی، اسباب اور علاج(3)

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی، اسباب اور علاج(3)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

برصغیر میں بادشاہتیں:

برصغیر (پاک و ہند) میں چاہے مقامی ہندو اور بدھ مت کی حکومتیں ہوں یا بعد کی مسلمانوں کی حکومتیں، سب بادشاہتیں ہی رہی ہیں۔ ہندو حکومتوں نے تو معاشرہ کو باقاعدہ اعلیٰ و ادنیٰ طبقوں میں تقسیم کرکے بادشاہتیں چلائی ہیں۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول کو قرآن مجید فرعونی اصول قرار دیتا ہے إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ(القصص/4) "بیشک فرعون نے زمین میں سرکشی کی، شہریوں کو تقسیم کر دیا اور گروہ بنا دیئے (جبکہ ولی امر کی ذمہ داری شہریوں کو متحد کرنا ہے)، ایک گروہ کو اپنے نیچے دبائے رکھا، انکے بیٹوں کو قتل کیا اور عورتوں کو (خادماؤں کی حیثیت سے) زندہ رکھا۔ بلاشک وہ فسادیوں میں سے تھا۔"

مسلمان بادشاہوں نے بھی برصغیر میں صرف اپنی بادشاہتیں قائم کرنے کے لیے قدم رکھا تھا، دین ان کے مدنظر نہیں تھا۔ یہاں پر جو شیعہ آئے، وہ بھی زیادہ تر امن کی تلاش میں آئے۔ ایک قلیل اقلیت دین کا پیغام لے کر آئی۔ البتہ یہاں پر جو صوٖفیاء دینی پیغام لے کر آئے، وہ اپنے ساتھ محبت اہلبیت علیہم السلام کا پیغام بھی لائے تھے۔ انگریزوں نے جب برصغیر میں قدم رکھا تو ہر طرف مسلمان بادشاہتیں تھیں۔ فرنگیوں نے ان سے اقتدار چھینا تو مسلمان تو فطری طور پر ان سے دشمنی رکھنے لگے، لیکن ہندؤوں کو جیسے کہ مسلمانوں سے آزادی ملی تھی، اس لئے ان کا انگریزوں کے ساتھ ایک طرح کا اتحاد بن گیا۔ ہندو طبقہ اسی وقت سے انگریزوں کے تعلیمی نظام میں چلا گیا اور ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد سول سروسز جوائن کرنے لگا۔ اس لئے جدید اسٹیٹ کیسے چلتی ہے، ان کے پاس نہ صرف اس کا علم آیا بلکہ ایک حد تک تجربہ بھی آگیا۔

اس کے مقابلے میں مسلمانوں سے اقتدار چھن گیا تھا، حالانکہ وہ اقتدار بادشاہوں سے چھینا گیا تھا، لیکن سب مسلمانوں نے انگریزوں کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ نہ انکے تعلیمی نظام میں گئے، نہ ہی حکومتی کاموں میں۔ جس وقت مسلمانوں کو اس چیز کا احساس ہوا، اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ مسلمانوں میں نواب اور نوابزادے تو تھے، جو بادشاہت کے طریقوں سے واقف تھے، لیکن جدید اسٹیٹ چلانے کے فن سے واقف نہیں تھے۔ انگریز جس طریقے سے برصغیر کو چلاتے تھے اور ان کا معاشرے پر کنٹرول تھا، وہ معاشرے کے ہر طبقے میں ان کے وافر تعداد میں مقامی نمائندے تھے۔ ان کو جاگیریں دی گئیں، سر، خان بہادر اور شمس العلماء جیسے خطاب دیئے گئے۔ یہی مقامی نمائندے انگریزوں کی پالیسی کے مطابق معاشرے کو اپنے کنٹرول میں رکھتے تھے۔ انگریز فوج برصغیر میں بہت قلیل تعداد میں تھی، معاشرے کو دبائے رکھنے کا سارا کام ان کے مقامی نمائندے (کالے انگریز) کرتے تھے۔

جب دوسری عالمگیر جنگ کے بعد انگریزوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ہندستان اور پاکستان بنا دیا گیا۔ ہندو قوم سے ان کی دوستی تھی اس لئے یہاں سے جاتے ہوئے انہوں نے وہ سارے مقامی نمائندے جن کے ذریعے وہ ملک چلاتے تھے، وہ ہندو سول حکومت کے حوالے کر گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندو افراد ایک جدید اسٹیٹ چلانے کے فن سے واقف تھے، اس لئے ہندستان نے نسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ لیکن دوسری طرف نہ مسلمانوں کو جدید اسٹیٹ چلانے کا فن آتا تھا نہ ہی انگریزوں نے اپنے مقامی نمائندے پاکستانی سول حکومت کے حوالے کئے بلکہ وہ اپنے سارے مقامی نمائندے (کالے انگریز) فوج کے حوالے کر گئے۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان میں کبھی کوئی سول سسٹم نہیں چلا۔ اس وقت پاکستان اس دور کے انگریزوں کے مقامی نمائندوں کی تیسری اور چوتھی نسل چلا رہی ہے۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 790844
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش