0
Sunday 28 Apr 2019 21:29

کیا پیپلز پارٹی پشاور میں یکم مئی کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کر پائے گی؟

کیا پیپلز پارٹی پشاور میں یکم مئی کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کر پائے گی؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

پاکستان پیپلز پارٹی نے یکم مئی یوم مزدور کے موقع پر بھرپور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا اور پشاور میں بھی اس دن احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔ پشاور میں مرکزی ریلی ہشت نگری جی ٹی روڈ سے شروع ہوگی، جو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے سامنے اختتام پذیر ہوگی۔ اسمبلی چوک میں احتجاجی جلسہ کیا جائے گا، جس سے صوبائی، ڈویژنل اور اضلاع کے قائدین خطاب کریں گے۔ پیپلز پارٹی نے اس احتجاج کو حکومت کی عوام اور مزدور کش پالیسیوں، سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری، بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو بنیاد بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی رہی ہے، دو جماعتی مخلوط حکومت پانچ سال تک برسراقتدار رہی، ہر چند کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بھی اے این پی تھی، لیکن پیپلز پارٹی نے بھی اتحادی کی حیثیت سے حکومت کو خوب انجوائے کیا۔ وزراء نے اپنوں کو خود نوازا اور دیرینہ رہنماؤں اور حقیقی جیالوں کو نظر انداز کیا۔

2008ء کے عام انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو کے شہید ہونے کا سانحہ رونما ہوا اور پھر پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ حاصل کرکے مرکز، سندھ اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنائیں۔ خیبر پختونخوا میں 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے انتہائی مایوس کن نتائج دیئے اور صوبائی اسمبلی میں صرف چار یا پانچ سیٹوں تک محدود ہوگئی۔ قومی اسمبلی میں خیبر پختونخوا سے پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہی موجود نہیں ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ پارٹی میں گروپ بندیاں اور باہمی اختلافات کو قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے گروپ بندیوں اور باہمی اختلافات کو ختم کرنے کیلئے کیا کوششیں کیں؟ کیا پارٹی کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے دیرینہ اور نظریاتی رہنماؤں کے تحفظات دور کئے گئے؟

افسوسناک امر تو یہ ہے کہ صوبائی قیادت خود ایک نہیں ہے۔ صوبائی صدر، صوبائی جنرل سیکرٹری اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات سمیت دیگر اہم عہدیدار ایک ہی منزل کے مسافر ہیں، لیکن سب نے الگ الگ راستوں کا تعین کر رکھا ہے۔ صوبائی کابینہ کے اہم عہدیدار صوبے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مستقل طور پر اسلام آباد میں ڈیرے جما رکھے ہیں، یہ عہدیدار بلاول ہاؤس کے طواف یا مرکزی قائدین میں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک جماعت ہے لیکن اس کے عہدیدار پارٹی کے اندر اپنی الگ الگ سیاست اور سوچ رکھتے ہیں۔ باہمی اختلافات اس حد کو چھو رہے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں تعاون نہیں کیا جاتا۔ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کے دو اہم رہنما اسوقت نیب کے شکنجے میں ہیں اور احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں، لیکن کیا مجال کہ صوبائی قیادت نے ان رہنماؤں کے حق میں ایک بیان بھی دیا ہو، یا کسی ایک پیشی میں ان کے ہمراہ دکھائی دیتے ہوں۔

سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مشیر عاصمہ عالمگیر کو احتساب کا سامنا ہے، ان دونوں رہنماؤں نے نیب کی پیشیوں سے تنگ ہو کر خود ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور نیب کو ریفرنس بنانے کیلئے درخواست کی۔ عدالت عالیہ کے احکامات پر نیب نے 30 کروڑ کا ریفرنس بنایا، جس کی سماعتیں احتساب عدالت میں ہو رہی ہیں۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق تقریباََ 15، 15 کروڑ کے نیب ریفرنس پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ نیب اس مبینہ کرپشن کو بھی ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے اور سماعتوں کے موقع پر لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، کبھی گواہ پیش نہیں کئے جاتے اور بھی انہیں سمن نہ بھجوانے کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ کیس احتساب عدالت میں ہے، اس لئے اس پر مزید بات کئے بغیر پی پی رہنماؤں میں اختلاف پر فوکس کیا جائے تو صورتحال کسی طور صوبے میں پیپلز پارٹی کے مفاد میں نہیں دکھائی دیتی۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بعد پیپلز پارٹی کو آج تک صوبے میں مضبوط قیادت میسر نہیں آئی، جب تک نامزدگیوں کا عمل جاری رہے گا، اسوقت تک قیادت تنازعات اور اختلافات کا شکار رہے گی۔

اس کا بہترین حل انٹرا پارٹی انتخابات میں ہے، لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت اس دریا کو عبور کرنے سے اجتناب برت رہی ہے۔ یہ موقف بھی دلیل نہیں ہوسکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے دور میں بھی ہر عہدے کیلئے تین تین ناموں کو شارٹ کرکے ان میں ایک نام کی منظوری دی جاتی تھی۔ پھر جو ایک نام فائنل کیا جاتا تھا تو پہلے دن سے ہی اختلاقات کی ایک نئی لہر شروع ہو جاتی تھی۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی، ڈویژنل اور اضلاع کی کابینہ پر نظر دوڑائی جائے تو تمام عہدیدار ہی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کا خیبر پختونخوا میں صوبائی دفتر موجود نہیں ہے۔ پشاور صوبے کا دارالحکومت ہے، جہاں پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نہ صرف دفاتر قائم ہیں بلکہ مستعد عملہ بھی تعینات ہے اور قائدین ان دفاتر میں موجود ہوتے ہیں۔ ملک میں چونکہ سوشل میڈیا کا دور دورا ہے، سیاسی جماعتوں کیساتھ ہی جماعتوں نے بھی اپنی تمام تر توجہ سوشل میڈیا پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی الگ ہی ڈگر پر چل رہی ہے، جس پارٹی کا صوبائی سیکرٹریٹ یا دفتر موجود نہ ہو، وہ کسی طرح اپنی سیاسی سرگرمیوں کو فعال رکھ سکتی ہے۔

کارکنوں کو اپنے صوبائی عہدیداروں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ صوبائی صدر ملاکنڈ کے باسی ہیں، جن کی پشاور میں رہائشگاہ ایسے علاقے میں ہے، جہاں پر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ صوبائی صدر سے ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جیالوں کو پل صراط جیسے مراحل اور سکیورٹی فورسز کے حیران کن سوالات کے بعد اپنا قومی شناختی کارڈ گروی رکھ کر ہی صوبائی صدر کی رہائشگاہ تک رسائی اور ان کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے۔ صوبائی جنرل سیکرٹری ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی ہیں لیکن ان صاحب سے ملاقات کیلئے اسلام آباد یاترا کرنا ہوگی۔ وہاں بھی ان سے ملاقات نصیب والے کو ہی میسر ہوتی ہے۔ صوبائی سیکرٹری اطلاعات کو ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھا جاسکے گا، وہ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات ہیں لیکن ہمیشہ مرکزی قیادت کا دفاع کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس پہلے تو مہینوں مہینوں نہیں ہوتے اور جب ایک آدھ اجلاس ہو بھی جائے تو بھی تمام صوبائی عہدیدار ایک ہی چھت تلے جمع نہیں ہوتے۔

صوبائی صدر بظاہر صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں لیکن ان اجلاسوں میں ڈویژنل یا اضلاع کے عہدیدار براجمان ہوتے ہیں۔ دیگر سیای و مذہبی جماعتوں کے اطلاعات کے سیکرٹری کابینہ اجلاسوں کے بعد میڈیا کو باقاعدہ بریفنگ دیتے ہیں، اگر بریفنگ نہ دی جاسکے تو کابینہ کے فیصلوں کی پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا نے ذرائع ابلاغ میں اپنی خبریں چلانے کیلئے تنخواہ پر ایک پارٹی کارکن کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، لیکن وہ بھی صوبائی صدر کے رویئے سے اکثر نالاں نظر آتے ہیں اور کئی کئی ماہ تک منظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک نمودار ہوتے ہیں تو ایک دن میں مختلف ایشوز پر صوبائی صدر تین تین بیانات داغ دیتے ہیں۔ صوبائی سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے خیبر پختونخوا کے اخبارات میں صوبائی قیادت اور پارٹی کی صورتحال پر ایک بیان بھی آج تک دکھائی نہیں دیا۔ صوبائی کابینہ کے ساتھ ڈویژنل قیادت کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ اضلاع میں بھی عہدیداروں کے اختلافات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ صوبے میں آج تک پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی کا عمل مکمل نہیں کیا گیا۔

اب جبکہ پشاور میں یکم مئی کو عوامی قوت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کیلئے تیاریاں اور انتظامات کا آغاز ہوچکا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تنظیم تو اختلافات اور عہدیدار باہمی تنازعات کا شکار ہیں، ایسے میں یکم مئی کو عوام اور جیالوں کو کیسے سڑکوں پر لایا جاسکے گا؟ ماضی قریب میں جھانکا جائے تو برسیوں اور سالگروں کے موقع پر تقاریب گروپ بندیوں کا شکار رہی ہیں۔ ضلعی تنظیم کوئی تقریب منعقد کرتی ہے تو سٹی ڈسٹرکٹ خود کو ضلعی تنظیم سے الگ رکھ کر اپنا فن دکھاتی ہے۔ ایسے میں بعض ایسے رہنما بھی میدان میں آجاتے ہیں، جو پارٹی میں کوئی عہدہ تو نہیں رکھتے البتہ ضلع یا سٹی ڈسٹرکٹ تنظیم کی تقاریب کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنی دکان چمکاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنماء بھی اختلافات کو ہوا دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور بجائے پارٹی کو ایک لڑی میں پرونے کے ان تقاریب کے مہمان خصوصی بن جانتے ہیں۔

اسی طرح مرکزی قیادت میں بھی گروپ بندیاں ہیں، جن کے صوبے میں اپنے اپنے گروپ ہیں۔ خورشید شاہ، یوسف رضا گیلانی، فریال تالپور اور دیگر قائدین کے گروپوں سے سب واقف ہیں، مرکزی سطح کے ان گروپوں کی شاخیں صوبوں، ڈویژنوں اور اضلاع تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کو 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، لیکن اے این پی نے اپنی خامیوں اور تنظیمی کمزوریوں پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ حال ہی میں نئے لوگوں کو صوبائی قیادت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ صوبائی صدارت امیر حیدر ہوتی سے لے کر ولی باغ کے حصے میں آگئی ہے۔ پارٹی سربراہ اسفندیار ولی خان کے صاحبزادے ایمل ولی کو صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔ اسی طرح تمام تنظیموں کو تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرائے گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی سطح پر پہلے تو قیادت ناپید ہے اور اگر قیادت میسر آ بھی جائے تو پھر وہ اس عہدے سے چمٹ جاتا ہے اور جب تک مکمل طور پر تنازعہ نہ بن جائے، عہدہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ پیپلز پارٹی میں ایسے رہنماء یا عہدیدار بھی موجود ہیں، جو خود کھیلتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کو کھیلنے دیتے ہیں۔ یکم مئی کے احتجاج کے بارے میں ڈویژنل صدر لیاقت شباب اور ضلع پشاور کے صدر ملک سعید کہتے ہیں کہ یوم مزدور کے موقع پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ اس احتجاجی ریلی میں ہزاروں افراد شرکت کریں گے، مختلف علاقوں سے قافلوں کی شکل میں لوگ مقامی رہنماؤں کی قیادت میں مرکزی قافلے میں شریک ہونگے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ احتجاج سابق تمام ریکارڈ توڑ دیگا اور حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر دیگا۔ اگر یکم مئی کو پیپلز پارٹی نے کوئی چمتکار کر دیا اور ہزاروں لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ اقدام پارٹی کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ بصورت دیگر پیپلز پارٹی اختلافات اور گروپ بندیوں کا شکار ہوکر صوبے میں اپنے وجود کو ہی کھو دے گی۔
خبر کا کوڈ : 791141
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش