2
3
Friday 3 May 2019 22:33

نقش راہ جو باقی ہے!

نقش راہ جو باقی ہے!
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ہم سے بچھڑے ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی ابھی کہیں سے ہمیں آواز دیں گے۔ کئی سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود وہ ہمارے معاشرے میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کام، ان کے تیار کردہ شاگرد، ان کے افکار و نظریات اور سب سے بڑھ کر ان کا عملی کردار ہمارے معاشرے میں ببانگ دہل اپنے وجود کا اظہار کر رہا ہے۔ شہید کی معطر یادوں نے ہمارے قلب و ذہن کو ابھی محصور کیا ہوا ہے۔ آپ کی باعظمت شخصیت کیلئے رائے دینا آسان نہیں۔ آپ معصومین علہیم السلام کی اولاد ہیں اور انہی کی طرح مجموعہ اضداد، قرآنی اصطلاح میں کفار کے مقابلے میں شدید اور مومنین کے ساتھ رحم دل اور مہربان۔ آپ کا شمار ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہے جو ماضی، حال اور مستقبل میں یکساں طور پر جھانکنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ زمانے کی بدلتی ہوئي صورتحال، عصر حاضر کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ ماضی میں رونما ہونے والی کامیابیاں اور شکستیں و ناکامیاں انکے فہم ادارک کے دائرے سے باہر نہیں تھیں۔

آپ مقامی یعنی قومی (پاکستانی تناطر میں) اور عالمی سطح پہ رائج نامطلوب حالت کا ادراک اور اس میں مطلوبہ تغیر کا عزم بالجزم رکھتے تھے۔ منتشر اور کمزور ملت کو  منظم و مستحکم کرنا ان کی آرزو تھی، جس کا آغاز لاہور میں میڈیکل کی تعلیم کے دوران ہوا، حالات کی سختی انہیں مایوس نہیں کرسکی، جہد مسلسل اور تابناک مستقبل کی امید تا شہادت برقرار رہی۔ وقتی حدود اور ضروریات کے قیدی نہیں تھے، نہ ہی تنہا سفر کے عادی، خوابیدہ ملت کے نوجوانوں کو بیدار کیا اور کارواں بنایا،  سمت دی اور جدوجہد کے راستے پہ ڈال دیا۔ آپ صاحب کردار، باہمت اور ہر آزمائش میں استقامت دکھانے والوں میں سے تھے۔ حرارت ایمان سے فکر و عمل کا مرقع اور دوسروں کیلئے عملی نمونہ۔ حقیقت کی دنیا میں زندگی عمل کا نام ہے، جس کی تہہ میں نظریہ اور آئیڈیالوجی کارفرما تھی، جو عمل کو باہدف اور با ارزش تر بناتی ہے، حرکت کو سمت دیتی اور مقصد کی رہنمائی کرتی ہے۔ ورنہ انسان چند قدم سے زیادہ سفر جاری نہیں رکھ پاتا اور شکست خوردہ ہو کر انحراف کا شکار ہو جاتا ہے، نظریاتی پختگی مادی زندگی کو مقصد پر حاوی نہیں ہونے دیتی اور تا شہادت جدوجہد میں سستی نہیں آتی۔

سوال یہ ہے کہ یہ خصوصیات مورثی تھیں یا زمانے، بالخصوص میڈیکل کالج کی فضا کا اثر تھا، یعنی وہ کون سے عناصر تھے اور کن عوامل کے زیر اثر ایسے عناصر کی حامل شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔؟ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے دلی وابستگی کا دم بھرے والوں کیلئے یہ جاننا ضروری ہے، کیونکہ ہر ایک اپنے آئیڈیل کی شکل میں اپنے آپ کو دیکھتا اور ویسا بننے کی تگ و دو کرتا ہے۔ پہلا عامل ہر انسان کی زندگی میں گھر ہے، شہید ایک متدین اور علماء کے خاندان میں متولد ہوئے، لیکن آپ علماء کے گھروں میں پیدا ہونیوالے افراد سے بالکل مختلف واقع ہوئے، مرد میدان اور پرسوز روح کے حامل تھے۔ خاندان کا ماحول اور والدین کے اثرات کے علاوہ  شہید کی ذاتی خصوصیات اور انفرادی کوشش نے علماء کے گھر اور دوسرے گھرانوں میں پیدا ہونے والوں سے آپ کو منفرد انسان بنایا، اسی طرح آپ کی پاکیزہ روح نے، روح ِ عصر، امام خمینی کی مقدس روح سے اتصال پیدا کیا اور ان کی ذات میں ضم ہوگئے۔ جس طرح امام خمینی زمانے میں منفرد تھے، اسی طرح شہید ڈاکٹر سرزمین پاکستان پر ممتاز تھے۔

اسی لیے روایتی اور رسوماتی معاشرے میں دین سے برائے نام تعلق رکھنے والے لوگوں میں دینی بیداری اور انقلابی روح پھونکنے والے ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید مقامی اور عالمی فرعونی اور استعماری طاقتوں کو ہمیشہ چیلنج کرتے رہے اور مخلصین کی ایک جماعت تیار کی، جو آپ کے نظریئے اور جدوجہد کی امین ہے۔ پاکستان کو استحصالی زور آور استعماری پٹھووں سے نجات دلانا، خط امام خمینی پر ثابت قدم گروہ تربیت کرنا اور مظلومین جہاں کی حمایت میں آواز اٹھانا، پاکستان کی آئندہ نسلوں کیلئے حجت کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ رہنما خطوط ہماری ذمہ داری اور ہماری عزت و عظمت کی بنیاد ہیں، ورنہ صرف ذلت اور سرنگونی ہے، شہید کے حضور جواب دہی بھی۔ زمانے کو بدلنے کی ضرورت اس وقت تک رہے گی جب تک دنیا حقیقی عادلانہ اسلامی نظام کے تابع نہیں ہو جاتی، شہید کا تعلق اسی قبیل سے تھا، منزل ان کے سامنے تھی، زمانے کے تغیر پذیر حالات انہیں متاثر نہیں کرتے تھے، نہ ہی بحران ان کے لیے سد ِ راہ بنے۔

جن حالات میں انہوں عشاق کا قافلہ ترتیب دیا، اس وقت تو کئی طرح کی عصبیتوں نے ہر طبقے کو جکڑا ہوا تھا، آپ نے قدم بڑھایا اور محال کو ممکن کر دکھایا، دست ِ نصرت ِ خداوندی آپ کے شامل ِ حال تھا، آپ خداوند متعال کے برگزیدہ انسان تھے، فقط لیڈر ورکر اور کارکن ہونا، آپ کی خصوصیت نہ تھی، نہ ہی مادی دنیا کو بڑھاوا دینے والے مینجیریل اصول آپ کی خصوصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا احساس ہی آپکی جدوجہد کا محرک تھا اور تعلیمات قرآن مجید، سیرت معصومین علہیم السلام رہنما تھی۔ یعنی خط امام خمینی عملی راستہ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی خط ِ ولایت سے وابستگی کے معترف افراد، امام خمینی کے جانشین اور مہدیؑ بر حق کے لیے زمینہ سازی کرنے والوں کے رہبر سید علی خامنہ ای کا ذکر کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، رہبریت کی پالیسیوں پہ مخمصے کا شکار ہوتے ہیں اور ماضی میں انقلاب اسلامی کی حمایت کو اسی زبان سے غلطی قرار دیتے ہیں، جن نوجوانوں نے شہید کو نہیں دیکھا، وہ ابہام کا شکار ہوتے ہیں، آئندہ نسلوں کیلئے ایسا مواد مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نسل نو کو اپنا راستہ متعین کرنے میں آسانی ہو۔
خبر کا کوڈ : 791474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سیدہ زہرا
Pakistan
جزاک اللہ، بہت عمدہ تحریر ہے۔۔۔۔۔
HAIDER
Pakistan
کالم ماشاء اللہ اچھا ہے، مگر آخری پیرا گراف میں آپ نے برادران امامیہ اور برادران وحدت پر چارج شیٹ لگائی ہے یا اس کی مزید وضاحت کریں۔ والسلام
ہماری پیشکش