3
Thursday 2 May 2019 10:36

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور ملکی مفاد

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور ملکی مفاد
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاک فوج کی یہ خوش قمستی رہی ہے کہ اِسے ہر دور میں اچھا ترجمان میسر آیا ہے، مگر اس بار ملنے والا ترجمان چتر چالاک اور گھما پھرا کر بات کرنیوالا نہیں، بلکہ میجر جنرل آصف غفور صاف گو اور "نِیٹ اینڈ کلین" افسر ہیں۔ سیدھی بات کرتے ہیں، اپنی خامیاں ہیں تو بھی اعتراف کرکے کھلے عام بتا دیتے ہیں اور خوبیاں ہیں تو وہ تو ہیں۔ آصف غفور نے انڈیا کیخلاف اپنا مقدمہ انتہائی خوبصورتی کیساتھ لڑا، یہاں تک کہ بھارتی میڈیا کے تابڑ توڑ حملوں کا ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ بھارت میڈیا کے منہ کی سوجن تاحال نہیں گئی۔ مسلسل "ٹکور" کے باوجود بھارتی میڈیا کا "سُوجا" منہ ابھی تک واپس اپنی پوزیشن پر نہیں آیا۔ بھارتی جارحیت کے جوابی وار کے طور پر بھارتی طیارہ گرانے اور بھارتی پائلٹ کی فوری رہائی تک، پاک فوج نے ہر پتا انتہائی چالاکی اور حاضر دماغی سے کھیلا، بھارت نے تو رات کی تاریکی میں جارحیت کی کوشش کی مگر پاک فوج نے علی الاعلان، واضح الفاظ میں بتا کر انڈیا کو جواب دیا۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہم انڈیا کو ایسا سرپرائز دیں گے کہ وہ یاد رکھے گا اور ایسا ہی ہوا، بھارتی طیارے کی تباہی اور ابھے نندن کی واپسی واقعی سرپرائز تھی، جس پر پوری دنیا ابھی تک حیران ہے اور اس کے اثرات بھی دیرپا برقرار رہیں گے۔

میجر جنرل آصف غفور بہت سی مخفی صلاحتیوں کے بھی مالک ہیں۔ جب یہ ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات ہوئے اور انہوں نے میڈیا کیساتھ پہلی نشست کی تو تھوڑا نروس تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ بندہ نہیں چلے گا، ابھی سے دباو میں دکھائی دے رہا ہے، مگر آہستہ آہستہ ان کی مخفی صلاحتیں سامنے آنے لگیں اور وہ اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ پوری دنیا میں آصف غفور کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ یقیناً جس نے بھی بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ان کا انتخاب کیا تھا، وہ شخصیت داد کی مستحق ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر گذشتہ برس کے آغاز میں لندن بھی آئے، جہاں پاکستانی سفارتخانے نے پاکستانی صحافیوں کیلئے ان کی پریس کانفرنس رکھی۔ پریس کانفرنس کا وقت 3 بجے سہ پہر رکھا گیا مگر میجر جنرل صاحب نے آتے ہی کہا "کیسی پریس کانفرنس، میں کوئی سیاستدان ہوں، چھوڑیں، کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوگی، چلیں باتیں کرتے ہیں۔" انہوں نے سب کیمرے بند کروا دیئے اور گپ شپ شروع  ہوگئی۔ انہوں نے اس گپ شپ میں ملکی صورتحال، تحریک طالبان کی دہشتگردی، آپریشن ردالفساد، آپریشن ضرب عضب اور فوج کے قیام امن کیلئے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے انتہائی دوستانہ انداز میں میڈیا کیساتھ پاک فوج کی حکمت عملی شیئر کی۔ انہوں نے اپنی خامیوں کا بھی اعتراف کیا۔

اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے بھی تجاویز لیں، میڈیا کی بعض منفی رپورٹنگ پر شکوہ بھی کیا اور دل کی باتیں کیں۔ تب سے وہ برطانیہ میں پاکستانی صحافیوں کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اب گذشتہ روز انہوں نے راولپنڈی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔ پاکستان کے اسلام آباد میں موجود تمام معروف صحافیوں نے شرکت کی۔ انہوں نے ملکی صورتحال پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے دینی مدارس کے مستقبل کا بھی فیصلہ سنایا۔ یہ احسن اقدام ہے۔ دینی مدارس سے انتہاء پسندی کے خاتمے کیلئے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا کا جا رپا ہے۔ چند مدارس کے ذمہ داران بالخصوص مولانا فضل الرحمان اس فیصلے پر کافی نالاں ہیں مگر دینی مدارس کی اکثریت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک بات بہت اہم ہے کہ یہ فیصلہ تو سنا دیا گیا ہے، مگر اس کو مکمل بھی کیا جائے، کیونکہ ماضی میں کچھ ایسے فیصلے بھی کئے گئے ہیں، جن کو مکمل نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان بنا اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا، اگر ہوتا تو موجودہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رک چکا ہوتا، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ آج بھی لہو لہان ہیں۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کون سے ایسے خفیہ ہاتھ ہیں، جو ابھی تک "دستِ ہنر مند" کی گرفت سے دور ہیں۔؟

اپنی حالیہ پریس کانفرنس ڈی جی صاحب نے کھلے ڈھلے انداز میں باتیں کیں۔ انہوں نے پاکستان میں بدامنی کا ذمہ دار ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کو قرار دیا۔ انہوں نے اس کے نقصانات کا بھی ذکر کیا، مگر یہ اختیار بھی تو "دستِ ہنر مند" کے پاس ہی ہے کہ ہم اس سے نکل بھی تو سکتے ہیں۔ مگر لگ ایسے رہا ہے کہ ہم ابھی تک چونکہ امداد کے منتظر ہیں اور سعودی ریالوں کے چکر میں آنکھیں موندے ہوئے ہیں کہ کہیں سعودی شاہ ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ کیوںکہ سعودی شاہ کی ناراضی کا مطلب ہماری روٹی دو کی بجائے ایک بھی نہیں، آدھی ہونے کا خدشہ ہے۔ ہماری اسی "بے بسی" نے ہی ہمیں آج اس مقام پر پہنچایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسی "غربت" کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی غیرت امریکہ کے پاس گروی رکھ دی تھی۔ نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ کیسی یک طرفہ وار ہے کہ اس میں صرف ایک مخصوص فرقہ ہی نشانہ بنتا ہے۔ ایران کیساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سعودی عرب کی یاری کے باعث ہی کشیدہ ہوئے ہیں۔ ایران پر الزام ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مداخلت کرتا ہے۔ ہمارا مشرق وسطیٰ میں کیا کردار ہے؟ سوائے مسئلہ فلسطین کے، ہم نے کبھی ان ممالک کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا، ہم مشرق وسطیٰ کے معاملے میں کبھی بھی فریق نہیں رہے۔ لیکن جہاں معاملہ فلسطین کا ہے تو ہم اپنے اس موقف سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے۔

مشرق وسطیٰ سے ہماری لاتعلقی کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے یمن فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ (البتہ اپنا آرمی چیف انہیں اِس کام کیلئے فراہم ضرور کر دیا)۔ ہماری خارجہ پالیسی کا کوئی وزن ہی ںہیں اور اگر کچھ ہے تو وہ ہم نے ہمیشہ ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کے پلڑے میں صرف اس لئے ڈالا کہ تیل اور ریال مل جائیں گے۔ ہماری خارجہ پالیسی  کی تو بنیاد ہی ڈالروں پر ہے۔ جہاں سے ڈالر ملے، ہم نے ادھر ہی دوڑ لگا دی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کوئی موثر خارجہ پالیسی بنائی ہی نہیں۔ جس طرح کی ہماری خارجہ پالیسیاں ہوتی ہیں، اس سے تو ملک بھکاری بن سکتا ہے، کسی کا دوست نہیں۔ دوست اور بھکاری میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی مثال ہے، کوئی کسی کنگلے کو آتا ہوا دیکھ لے تو منہ پھیر لیتا ہے کہ کہیں اُدھار ہی نہ مانگ لے، ہماری ماضی کی خارجہ پالیسی نے ہماری حالت ایسی ہی کنگلی بنا دی تھی۔ جو آمر اقتدار میں آئے، وہ امریکہ کے دستِ نگر رہے، جمہوری حکومتیں آئیں تو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کئے رکھا، ایسے میں ملکی معیشت تباہ نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

پالیسی تو یہ ہونی چاہیئے کہ ہم ایڈ کے بجائے ٹریڈ پر توجہ دیتے۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے، سرمایہ کاری بڑھاتے، لیکن ہمیں ہماری سہل پسندی مار گئی۔ ہم نے چین کیساتھ تجارت بڑھائی نہ ایران کیساتھ، ترکی کو موقع دیا نہ سعودی عرب کو۔ ایران ہمسایہ ملک ہے، گیس پائپ لائن کے منصوبے کے معاملے میں ہم نے غیروں کی خوشنودی کیلئے اپنے مفاد کو داو پر لگا دیا۔ ایران نے ہمیشہ پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھا ہے، مگر ہم امریکہ و سعودی عرب کی خاطر مخلص دوست کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کا اصول ہے کہ دوست تو بدلے جا سکتے ہیں، ہمسائے نہیں، مگر ہم نے مشرقی ہمسائے کو دشمن بنا رکھا ہے، مغربی طرف افغانستان اور ایران ہیں، افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ ہم سے زیادہ ہ چکا ہے، ادھر سے بھی خیر کی خبر نہیں، باقی رہ گیا ایران، تو ایران کیساتھ ہم تعلقات بنانے سے پہلے ادھر ادھر ایسے دیکھتے ہیں، جیسے ہم کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔

عمران خان کے آنے سے معاملات میں بہتری ہوتی دکھائی دے رہی ہے، مگر اس میں پاک فوج کی جانب سے بھی مثبت ردعمل آنا چاہیئے، فوج میں لگتا ہے کہ کچھ "ضیائی باقیات" موجود ہیں، جو نہیں چاہتیں کہ پاک ایران تعلقات بہتر ہوں، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایران سے بہتر پاکستان سے کوئی تعاون نہیں کرسکتا، وہ اس لئے کہ ایران، امریکہ کا دشمن ہے، جبکہ سعودی عرب کی واشنگٹن سے دوستی ہے۔ سعودی عرب امریکہ دباو میں آکر ہمارے ساتھ تعاون روک سکتا ہے، مگر ایران امریکی دباو کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ پراکسی وار جس کا ڈی جی آئی ایس پی آر نے ذکر کیا وہ یک طرفہ تھی، ایک ظالم تھا تو دوسرا مظلوم، ایک تھپڑ مارنے والا تھا اور دوسرا تھپڑ کھانے والا، پھر کیسے آپ نے ظالم اور مظلوم کو ایک صف میں کھڑا کر دیا؟ یہ کیسا انصاف ہے،؟ ملک ہمیشہ وہی ترقی کرتے ہیں، جن کے حکمران اپنے ملک کیلئے سوچیں، جب ہم دوسروں کی خوشنودی کا خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں تو ملک نہیں چلا کرتے۔ ہمیں ملک چلانا ہے اور ہر صورت چلانا ہے۔ اس لئے دوسروں کی خوشنودی نہیں ملک کا مفاد دیکھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 791727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش