1
Friday 3 May 2019 12:27

گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد، کہیں دیر نہ ہو جائے

گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد، کہیں دیر نہ ہو جائے
تحریر: لیاقت علی انجم

گذشتہ روز قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری دی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جی بی سے نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام  وفاقی اداروں کو گلگت بلتستان سے واپس بجھوایا جائے، پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی جاوید حسین کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کی سوائے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان کے تمام حکومتی ممبران نے بھی حمایت کی، جبکہ اپوزیشن کے دو ممبران کے علاوہ دیگر تمام اراکین نے بھی حمایت کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے تحت یہ علاقہ متنازعہ ہے اس لیے ایک متنازعہ علاقے میں وفاقی اداروں کی موجودگی کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کیونکہ آزاد کشمیر بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے وہاں کوئی وفاقی ادارہ موجود نہیں، جی بی بھی مسئلہ کشمیر ایک فریق ہے اور متنازعہ علاقہ ہے۔ قرارداد کے حمایتی ممبران اسمبلی کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں وفاقی ادارے موجود نہیں، وہاں نیب ہے نہ ہی ایف آئی اے، ان کی اپنی سپریم کورٹ ہے، وفاقی حکومت کا بھی موقف ہے کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق اور متنازعہ علاقہ ہے تو پھر ایک متنازعہ علاقے کی حیثیت کے مطابق حقوق دیئے جائیں۔

جی بی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب نمائندوں کی جانب سے اسمبلی سے اس طرح کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اس سے پہلے اس طرح کے مطالبات قوم پرست جماعتیں ہی کرتی تھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے آگے بہت کچھ ہونے والا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں جی بی اسمبلی میں جو کچھ باتیں ہو رہی ہیں وہ اسمبلی کی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے ''وسیع تر قومی مفاد'' میں باہر نہ لانا ہی بہتر سمجھا۔ وفاقی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں اور عام لوگوں کے رویوں میں واضح تبدیلی کے آثار دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس بات کا ادراک ہمارے مقتدر حلقوں اور سیاسی اشرافیہ کو بھی ہے، سرکاری اور نجی محفلوں، جلسوں میں وہ باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں جس کو پہلے ''شجر ممنوعہ'' تصور کیا جاتا تھا، اسمبلی کی کارروائی کی کوریج کرنے والے سینئر صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ایوان میں گلگت بلتستان کے بنیادی اور آئینی حقوق مرکز بحث بنے ہوئے ہیں، گلگت کے کسی گلی میں پانی کا بھی مسئلہ ہو تو اس کے تانے بانے آئینی حقوق اور محرومیوں سے جوڑا جاتا ہے۔

گذشتہ روز ہی ایک سیکرٹری کی جانب سے ممبران اسمبلی کے احکامات نہ ماننے  کے حوالے سے بحث کے دوران ایک رکن اسمبلی اٹھ کھڑا ہوا اور زور دار لہجے میں بولا '' ایک سیکرٹری اگر پورے ایوان کی بات نہیں مانتا تو غلطی سیکرٹری کی نہیں بلکہ سسٹم کی ہے اس سسٹم کو للکارو جو ستر سالوں سے ہم پر تھونپا گیا ہے ۔'' اور ہاں سوشل میڈیا پر نوجوان نسل کا مجموعی بیانیہ بھی کوئی نیک شگون نہیں۔ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ خطے کو انتظامی اختیارات دیگر صوبوں کے برابر حاصل ہیں، گندم پر سبسڈی بھی مل رہی ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ ہاں جی مسئلہ اختیارات اور مراعات کا نہیں، عوام کے جذبات اور احساسات کا ہے، ایک فرد کو کسی پنجرے میں بند کر کے محمل کے بستر پر بٹھا کر اس کے سامنے من و سلویٰ بھی رکھ دیں تو کیا وہ خود کو پرسکون اور آزاد محسوس کریگا؟ کیا گلگت بلتستان کا مسئلہ بھی اسی پنجرے کی طرح ہے؟ 2 نومبر 1947 اور 14 اگست 1948 کو عوام نے ایک جذبے کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، آج اس جذبے کو پائوں تلے روند پر سامنے ہیرے جواہرات کے ڈھیر بھی لگا دیں تو کیا عوام مطمئن ہونگے؟

وفاق قومی اور بین الاقوامی سطح پر کہتا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے اور مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے تو مسئلہ کشمیر کے باقی فریق اور جی بی فریق میں تفریق کیوں ہے؟ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں متنازعہ حیثیت کے مطابق سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہے لیکن متنازعہ گلگت بلتستان میں ایس ایس آر ختم کر کے مختلف النسل لوگوں کی کالونی بنانے کی کیا وجوہات ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں ایس ایس آر کے ساتھ بااختیار اسمبلی اور انڈین پارلیمنٹ میں بھی بھرپور نمائندگی ہے جبکہ آزاد کشمیر کا اپنا آئین اور ادارے ہیں اس کے مقابلے میں گلگت بلتستان کو فٹ بال بنا کر کیوں کھلونا بنایا ہوا ہے؟ نواز شریف دور میں سرتاج عزیز کمیٹی نے سیاسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ایک جامع رپورٹ تیار کی۔

اس وقت کے ڈی جی ملٹری آپریشن ساحر شمشاد جو حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پا گئے ہیں بھی کمیٹی میں موجود تھے اور رپورٹ پر ان کے دستخط بھی ہیں، اس رپورٹ میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کی سفارش کی گئی تھی لیکن بعد میں  مقبوضہ کشمیر سے دو لیڈروں کی کال پر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا، کیا وفاق کے نزدیک گلگت بلتستان کے پندرہ لاکھ عوام کے جذبات سرحد پار دو لیڈروں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں؟ سنا ہے پی ٹی ایم کے منظور پشتین رائو انوار نامی ایک بہانے سے راتوں رات لیڈر بنا بعد میں درد سر، گلگت بلتستان میں بہانے نہیں جواز ہے، سوچ لے۔۔!!
خبر کا کوڈ : 791920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش