0
Saturday 4 May 2019 13:59

پنجاب یونیورسٹی سے امریکہ تک پھیلے ڈارک نیٹ ورک کا انکشاف

پنجاب یونیورسٹی سے امریکہ تک پھیلے ڈارک نیٹ ورک کا انکشاف
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

چند ہفتے قبل ملکی تاریخ کا بڑا ہیکنگ اسکینڈل منظر عام آیا کہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کا ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ ہیک شدہ ڈیٹا میں طالبات کے نمبرز، تصاویر اور ویڈیوز شامل ہیں، ہیکرز نے طالبات کا ڈیٹا اسپائی ایپ سے ہیک کیا، یہ ڈیٹا ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائنز میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ڈارک ویب وہ دنیا ہے، جہاں ڈارک نیٹ مارکیٹیں سرگرم ہیں، اس کو زیادہ اسلحہ، منشیات کی فروخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ڈارک ویب پر کرنسی بھی خصوصی استعمال کی جاتی ہے، جو بٹ کوائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جرمن پولیس نے عالمی سطح پر کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں ڈارک نیٹ کے تین مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار ملزمان جرمن شہری ہیں اور ان کی گرفتاری بھی جرمنی سے ہی عمل میں آئی ہے۔ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق گرفتار ملزمان ڈارک نیٹ پر ایسا غیر قانونی نیٹ ورک چلا رہے تھے، جس کا نام انہوں نے وال اسٹریٹ مارکیٹ تجویز کیا تھا۔

عالمی سطح پر کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک ملین رجسٹرڈ اکاؤنٹس کا حامل اپنی طرز کا یہ دنیا کا دوسرا بڑا نیٹ ورک تھا۔ جرمن پولیس کے مطابق اس نیٹ ورک پر اپنے اکاؤنٹ چلانے والے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب فروخت کنندگان چوری شدہ ڈیٹا، جعلی دستاویزات اور منشیات کی تجارت کرتے تھے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے گرفتار ملزمان کی عمریں 22 سے 31 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ جرمن پولیس کے مطابق مشتبہ ملزمان کو جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے کے اہلکاروں نے وفاقی جرمن صوبوں ہیسے، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور باڈن ورٹمبرگ میں مارے جانے والے چھاپوں کے دوران گزشتہ ہفتے گرفتار کیا تھا۔ مگر ذرائع ابلاغ کو اس کی اطلاع گذشتہ روز دی گئی۔

جرمنی کے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق فیڈرل کرائمز آفس کے اہلکاروں کو مشتبہ ملزمان تک پہنچنے میں طویل تحقیقاتی عمل سے عرصے تک گزرنا پڑا۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات میں جرمنی کے تحقیقاتی اداروں نے جرمنی کی سائبر کرائمز ایجنسی زیڈ آئی ٹی، یورپی پولیس ایجنسی یورو پول اور امریکہ و ہالینڈ کے تفتیشی و تحقیقاتی اداروں سے بھرپور مدد و معاونت حاصل کی۔ ڈی پی اے کے مطابق ڈارک نیٹ پر وال اسٹریٹ مارکیٹ نامی نیٹ ورک چلانے والے مشتبہ ملزمان کو جس وقت گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ زیر زمین جانے کی تیاریاں مکمل کرچکے تھے۔ جرمن پولیس اور اس کا ساتھ دینے والے دیگر تحقیقاتی ادارں نے جب ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے تو اس وقت انہیں رہائش گاہوں سے ساڑھے پانچ لاکھ یورو نقدی، متعدد مہنگی گاڑیاں اور زیر استعمال کمپیوٹر ہارڈ ویئر میں محفوظ لاکھوں یورو مالیت کی کرپٹو کرنسی بھی ملی۔
 
جرمن ملزمان کے خلاف کی جانے والی عالمی تحقیقات کے بعد امریکہ سے بھی دو ایسے ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، جنہوں نے اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے بڑی مقدار میں مشیات بھی فروخت کی تھیں۔ جرمن پولیس نے ملزمان کے پورے گروپ کا ہارڈ ویئر اوردیگر بیک اپ کمپیوٹر سرورز بھی اپنے قبضے میں لیے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کام کرنے والا ڈارک نیٹ کا نیٹ ورک اپنی تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے مکمل طور پر بند ہوگیا ہے۔ جرمنی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ملزمان کے جس نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا ہے، اس پر ہیروئن، کوکین اور ایمفی ٹامینز جیسی منشیات کے علاوہ مسروقہ آن لائن ڈیٹا، جعلی دستاویزات اور کسی بھی کمپیوٹر نیٹ ورک کو مفلوج کر دینے والے متعدد اقسام کے سافٹ ویئرز جنہیں اصطلاحاً malware کہا جاتا ہے، کو فروخت کیا جاتا تھا۔ جرمنی سمیت دیگر عالمی تحقیقاتی ایجنسیوں و اداروں کے مطابق ڈارک نیٹ کی وال اسٹریٹ مارکیٹ میں ہر قسم کی خرید و فروخت بٹ کوئن اور مونیرو جیسی کرپٹو کرنسیوں میں کی جاتی تھی۔

اس نیٹ ورک پر ہونے والی خرید و فروخت میں مشتبہ ملزمان اپنی خدمات کا معاوضہ چھ فیصد تک کمیشن کی صورت میں وصول کرتے تھے۔ اپریل 2019ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خبر پاکستان کے طول و عرض میں انتہائی تشویش کے ساتھ سنی و پڑھی گئی تھی کہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کا ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ اسی خبر میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ طالبات کا ڈیٹا ہیکرز نے اسپائی ایپ سے ہیک کیا ہے۔ پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے صورتحال سامنے آنے پر ملزمان کے خلاف کارروائی کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ ہیکرز طالبات کا جو ڈیٹا فروخت کر رہے ہیں، ان میں طالبات کے نمبرز، تصاویر اور ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ہیکرز ڈیٹا ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن میں فروخت کر رہے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے بھی اس ضمن میں بتایا تھا کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو خط لکھ دیا گیا ہے، جس کے بعد اس کے سائبر کرائم ونگ نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ملک کے 22 بینکوں کے 19 ہزار 846 صارفین کے کارڈز کی معلومات فروخت کے لیے ڈارک ویب پر ڈالی گئی ہیں۔ ڈارک ویب دنیا کا وہ مخصوص علاقہ ہے، جہاں ڈارک نیٹ مارکیٹیں قائم ہیں۔ یہاں ہر وہ چیز فروخت ہوسکتی ہے اور خریدی جا سکتی ہے، جس کا قانونی مارکیٹس اور مہذب دنیا میں شاید تصور بھی محال ہو، البتہ خریداری ڈیجیٹل کرنسی ہی میں ممکن ہوتی ہے۔ شہریوں کو دھمکی آمیز ای میل بھی موصول ہوتی ہیں، جن میں انہیں کہا جاتا ہے کہ ان کا قابل اعتراض ڈیٹا بلیک میلرز کے پاس ہے اور اگر انہیں بٹ کوائن میں ایک مخصوص رقم کی ادائیگی نہ گئی تو وہ ڈیٹا آپ کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کے تمام ممبران کو بجھوادیا جائے گا، ای میل میں ایک لنک بھی دیا جاتا ہے جو کوڈز پر مشتمل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر آپ کو اس طرح کی دھمکی دے کر ہیکرز آپ سے کوڈز کھولنے کی غلطی کروانا چاہتے ہیں۔ جس سے آپ کا مکمل ڈیٹا، بشمول ای میلز، سوشل میڈیا اکاﺅنٹس اور کمپیوٹر میں پڑا ذاتی ڈیٹا ہیکرز کے پاس چلا جاتا ہے، جسے ڈارک ویب پر فروخت کیا جاتا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ہیکرز آپ کو آپ کے کسی اکاﺅنٹ کا یورز اور پرانا پاس ورڈ ارسال کرکے ڈراتے ہیں کہ انہیں آپ کے اکاﺅنٹ تک رسائی حاصل ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں سائبر سکیورٹی کا معیار انتہائی پست ہونے کی وجہ سے پاکستانی شہری ہیکرز کا آسان شکار ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ وہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کو سختی سے پابند بنائے کہ وہ اپنے صارفین کو عالمی معیار کی سائبر سکیورٹی فراہم کریں۔ اس سلسلہ میں سائبر کرائم کو متعدد شہریوں کی جانب سے فاروڈ کی گئی ہیں، مگر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
خبر کا کوڈ : 792147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش