0
Saturday 11 May 2019 11:36

دہشتگردوں نے حملوں کا انداز بدل لیا، اداروں کو تحقیقات میں مشکلات

دہشتگردوں نے حملوں کا انداز بدل لیا، اداروں کو تحقیقات میں مشکلات
لاہور سے ابوفجر کی رپورٹ

پاکستان میں حالیہ برسوں میں خودکش دھماکوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایسے حملوں کو روکنے پر حکام اپنی مجبوریوں کا کئی بار اظہار بھی کرچکے ہیں۔ تاہم ایسے واقعات کے بعد تحقیقات کرنیوالے حکام کو خودکش بمبار کے سر کی صورت میں ایک اہم ثبوت مل جاتا تھا اور اس ثبوت سے تحقیقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی تھی۔ لیکن حالیہ خودکش حملوں میں تفتیشی حکام کو کافی مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے، کیونکہ ان کو جائے وقوعہ سے حملہ آور کا سر نہیں ملتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق داتا دربار خودکش حملے کے بعد جائے وقوعہ سے شواہد جمع کرنیوالی ٹیم کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حالیہ واقعات میں خودکش دھماکے کے بعد سر نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ حملہ آوروں اور ان کے ہینڈلرز نے طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ پہلے خودکش بمبار سیدھا کھڑے ہو کر اپنے آپ کو اڑاتے تھے، لیکن اب خودکش حملہ آور رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھ چھاتی سے تھوڑا نیچے باندھ کر خود کو دھماکے سے اڑاتے ہیں۔

انہوں نے اس طریقے کے پیچھے سوچ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ سیدھا کھڑے ہو کر دھماکے کرنے کی صورت میں بمبار کا سر عموماً تن سے جدا ہو جاتا تھا اور دوسرا اس کے بازوں یا ہاتھ بھی الگ ہو جاتے تھے، لیکن اس نئے طریقے کی وجہ سے ایک تو سر مکمل طور پر اڑ جاتا ہے اور دوسرا ہاتھوں کی انگلیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے انگلیوں کے نشان ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ طریقہ کار کی تبدیلی کے باعث اس سے ہونیوالے جانی نقصان میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا نہیں کے جواب میں جائے وقوعہ سے شواہد جمع کرنیوالی ٹیم کے رکن نے کہا کہ خودکش جیکٹ میں آگے اور پیچھے دونوں جانب دھماکہ خیز مواد اور بال بیئرنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ رکوع کی پوزیشن میں دھماکہ جب کیا جاتا ہے تو اس سے اگر سامنے کی جانب کم نقصان ہوتا ہے تو عقبی جانب زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں کچھ عرصہ پہلے واہگہ سرحد پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی یہی طریقہ کار استعمال کیا گیا تھا۔ اس میں رکوع کی حالت میں دھماکہ کیا گیا تھا اور جس میں 55 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس دھماکے میں حملہ آور کے چند بال اور جِلد کا کچھ حصہ ہی مل پایا تھا۔

اہلکار نے مزید بتایا کہ لاہور میں پولیس لائنز کے قریب ہونیوالے دھماکے میں بھی خودکش حملہ آور نے رکوع پوزیشن ہی میں اپنے آپ کو اڑایا۔ لیکن ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ خودکش بمبار نے بظاہر جلدی میں دھماکہ کیا تھا کیونکہ اس کا ہدف اس وقت پولیس لائنز میں موجود ڈی آئی جی ہوسکتے تھے۔ جلد بازی کے باعث اس کے بالوں کی مکمل جلد جائے وقوعہ سے ملی اور ایک ناقابل شناخت لاش بھی ملی، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا رہا کہ یہ شخص خودکش بمبار کو ہدف تک پہنچانے آیا تھا۔ انہوں نے واہگہ کی بجائے، پولیس لائنز اور داتا دربار کے باہر ہونیوالے دھماکے میں جانی نقصان کم ہونے کے بارے میں بتایا کہ تینوں واقعات میں خودکش جیکٹ میں بال بیئرنگ کی تقریباً ایک جیسی مقدار یعنی تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار تک استعمال کی گئی تھی، لیکن بظاہر یہ دونوں دھماکہ جلدی میں کیے گئے، جس کی وجہ سے نقصان کم ہوا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ سمیت شواہد سے متعلق جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں خودکش بمبار کا سر تحقیقات میں کتنا مددگار ہوسکتا ہے، پر انہوں نے کہا کہ سر کی سرجری کرنے کے بعد اس کی تصاویر سکیورٹی اداروں، مخبروں اور تحقیقات میں مدد دینے والے دیگر ذرائع کو جاری کی جاتی ہیں۔ اس کی مدد سے حملہ آور کی حملے سے پہلے کسی نہ کسی جگہ موجودگی کے بارے میں معلومات ملنے کے کافی امکانات ہوتے ہیں۔ لیکن موجودہ طریقہ کار کی وجہ سے صرف حملہ آور کی نسل کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی کے زیادہ بہتر انتظامات پر زور دیا جاتا ہے، لیکن اب موجودہ صورتحال نے اس ضمن میں پائی جانیوالی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 793555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش