0
Saturday 11 May 2019 17:52
کیڈٹ کالج سے زیادہ ضروری اراضی کا تصفیہ ہے

پاراچنار، ملکی اور علاقائی مسائل کے حوالے سے علامہ عابد حسینی کی پریس کانفرنس

تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرواکر انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے
پاراچنار، ملکی اور علاقائی مسائل کے حوالے سے علامہ عابد حسینی کی پریس کانفرنس
رپورٹ: ایس این حسینی

تحریک حسینی کے سربراہ سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسینی نے کرم کے گونا گوں مسائل، بالش خیل شاملات کے دیرینہ مسئلے کے حل، پاراچنار میں عدالت کے لئے کلاس فور بھرتی کے سلسلے میں میرٹ اور اہلیت کو نظر انداز کرکے نان لوکل افراد کی تعیناتی نیز پاکستان بھر میں ملت تشیع کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے آج مدرسہ رہبر معظم میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر تحریک حسینی کے ساتھ مجلس علمائے اہلبیت اور ایم ڈبلیو ایم کے رہنما بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر علامہ عابد الحسینی، تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین جعفری، تحریک کے نائب صدر مولانا عابد حسین جعفری اور مجلس علماء کے صدر علامہ احمد علی روحانی نے کہا کہ کرم انتظامیہ طوری بنگش اقوام کو انصاف دلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے درجنوں مرتبہ اپنے مسائل ان کے گوش گزار کرائے ہیں، تاہم انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں اہل تشیع کو گھروں سے بغیر کسی جرم کے اٹھا کر غائب کر دیا گیا اور وہ سالوں سے اپنے خانوادوں سے بچھڑے ہوئے ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ کرم انتظامیہ نے تعصب کے عینک لگا رکھی ہے اور وہ کسی بھی مسئلے میں میرٹ کو ملحوظ نظر نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ کرم میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ اپر کرم بالخصوص پاراچنار میں رہتا ہے، تاہم جب بھرتیاں ہوتی ہیں تو میرٹ اور اہلیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاراچنار کی بجائے لوئر کرم سے بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کچھ عرصہ قبل پاراچنار میں عدالت کے لئے کلاس فور ملازمین کی بھرتی کے حوالے سے متعلقہ محکمہ کی جانب سے ایک اشتہار دیا گیا۔ جس کے لئے کرم بھر سے اہل امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں، مگر گذشتہ دنوں معلوم ہوا کہ کسی میرٹ اور اہلیت کا لحاظ رکھے بغیر ایک مخصوص شخص کی سفارش پر تمام تر بھرتیاں بگن اور لوئر کرم سے ہوکر اسامیوں کو پر کر دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں میرٹ کا سسٹم سرے سے ہی ختم ہوگیا ہے۔ کیا موجودہ حکومت بھرتیوں کیلئے قرعہ اندازی کا نیا نظام متعارف کروا رہی ہے یا میرٹ صرف دیگر اضلاع کیلئے ہے، کرم اس سے مستثنیٰ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر میدان میں طوری اور بنگش قبائل کو نظرانداز کرکے دیگر افغان اور غیر رجسٹرڈ قبائل کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

مولانا عابد حسین جعفری نے کہا کہ بالش خیل کے مسئلے کو خواہ مخواہ طول دیا جا رہا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ نہیں، جس کا حل موجود نہ ہو، یا مشکل ہو بلکہ اس اور اس طرح کے دیگر دیوانی تمام مسائل کا حل مقامی حکومت کے پاس موجود ہے۔ ان کے پاس زمینوں اور شاملات کا پورا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ حق و ناحق کو پوری طرح سمجھتے ہیں، اس کے باوجود بھی وہ تساہل سے کام لیتی ہے۔ صرف تساہل ہی نہیں بلکہ مسئلے کے حل کی بجائے کرم کے ذمہ دار افسران اسی مقبوضہ اور مغصوبہ علاقے کو متنازعہ قرار دیکر اس میں اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کیڈٹ کالج کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کیا یہی عدالت ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کرم میں میرٹ کے علاوہ کوئی بھی فیصلہ یا قانون قبول نہیں کیا جائے گا۔ خواہ سرکاری بھرتیوں کا مسئلہ ہو، یا شاملات وغیرہ کی تقسیم کا مسئلہ، ہم میرٹ کے علاوہ کسی بھی من پسند فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیڈٹ کالج کی آڑ میں ہماری زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے بلکہ حکومت کرم کے مسائل حل کرنے میں اگر واقعاً سنجیدہ ہے، تو پہلے خار کلی اور بالش خیل کا پاڑہ چمکنی کے ساتھ بارڈر معلوم کیا جائے۔ اس کے بعد جس قبیلے کے احاطے میں کالج قائم کرنا ہو، اسی کے ساتھ اگریمنٹ کیا جائے۔

علامہ عابد حسینی کا کہنا تھا کہ آئے روز پاکستان میں شیعیان حیدر کرار کو ظلم و بربریت اور ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بے گناہ افراد کو اٹھا کر سالوں تک غائب کرکے ماورائے عدالت سزائیں دی جاتی ہیں۔ جن کے انتظار میں انکی مائیں اور بہنیں سالوں تک بیٹھی رہتی ہیں۔ کیا پاکستان میں کوئی عدالت نہیں کہ ملزمان یا مجرمین پر کیس چلایا جاسکے۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کو کوئٹہ، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاتا ہے اور قاتل ان کے قتل کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں، جبکہ اس ملک میں قاتل پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ ہم مرکزی حکومت نیز دیگر ذمہ دار اداروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا چھ کروڑ سے زائد اہل تشیع کی اس ملک میں ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ کیا چھ کروڑ سے زیادہ شیعہ عوام اس ملک کے باشندے نہیں۔ اگر انہیں اس کے تحفظ کی کوئی تدبیر نہیں سوجھتی، تو انہیں خود اجازت دی جائے کہ وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کی خاطر خود ہی اقدام کرے۔ مقررین نے حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کرم سمیت ملک بھر کے تمام لاپتہ افراد کو فوراً بازیاب کروایا جائے اور جن کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو، ان پر عدالتوں میں باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 793645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش