QR CodeQR Code

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور پاکستان

12 May 2019 09:13

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ شروع میں ایران پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تھا، لیکن ہندوستان جلد ہی اس منصوبے سے نکل گیا، تاہم پاکستان اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہوگیا اور اسے امن پائپ لائن منصوبے کا نام دیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا۔


اداریہ
پاکستان میں عمران خان کی حکومت اپوزیشن کی پیشگوئیوں پر چل رہی ہے، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے سیاستدان یا تو زیادہ منجھے ہوئے ہیں یا تحریک انصاف کی حکومت میں ان کا اثر و نفوذ اس قدر زیادہ ہے کہ بیوروکریسی وقت سے پہلے ہی موجودہ حکمرانوں کے منصوبوں کو سابقہ حکمرانوں تک پہنچا دیتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جب تہران میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بات کی تھی تو اپوزیشن نے ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ کہا تھا کہ اس مسئلے پر بھی عمران خان کو یوٹرن لینا پڑے گا اور اس سے پاکستان کی مزید سبکی ہوگی۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے اپوزیشن کے اس موقف کو حسد اور عمران کی کامیابی سے خوفزدہ ہونے کا طعنہ دیا تھا، لیکن اب انٹراسٹیٹ گیس سسٹم کے مینجنگ ڈائریکٹر مبین صولت نے کھل کر بیان دیا ہے کہ فروری میں ایران نے باضابطہ طور پر پاکستان کو نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے مقررہ وقت میں اپنے علاقے میں پائپ لائن نہیں بچھائی تو ایران ہیگ کی عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرے گا۔

مبین صولت نے حکومت پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ پاکستان نے ایران پر امریکی پابندیوں کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے اور ایران کو اس حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ شروع میں ایران پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تھا، لیکن ہندوستان جلد ہی اس منصوبے سے نکل گیا، تاہم پاکستان اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہوگیا اور اسے امن پائپ لائن منصوبے کا نام دیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران پاکستانی سرحد تک نو سو کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھا چکا ہے جبکہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر آٹھ سو کلومیٹر پائپ لائن بچھانی ہے۔ پاکستان اس وقت انرجی کے تاریخی بحران سے دوچار ہے، اگر وہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا تو پاکستان میں قدرتی گیس کی کمی کا مسئلہ ختم ہو جاتا، لیکن پاکستان کی حکومتوں پر واشنگٹن کا دبائو اور خوف اس قدر زیادہ ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر پاکستان بے بس و لاچار نظر آتا ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی اس منصوبے کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کی صنعت گیس کی کمی کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہے، لیکن پاکستانی پالیسی ساز امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا نمبر ون دشمن ہندوستان امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہونے کے باوجود ایران سے تجارتی تعلقات بڑھا کر اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے اور چاہ بہار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں اپنا تجارتی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، جس کی تازہ مثال چاہ بہار سے ہندوستانی چاول کی پہلی کھیپ کا افغانستان روانہ ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کی منظوری کے بعد ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں غیر قانونی ہیں۔ ہندوستان اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے، پاکستانی پالیسی ساز لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، اس صورتحال میں ایران پر یہ الزام لگانا کہ ایران کے ہندوستان سے تعلقات پاکستان سے زیادہ ہیں، عالمی سفارتی اصولوں سے عدم آشنائی ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ  مشکل وقت میں جو ساتھ دیتا ہے، اس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 793706

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/793706/پاک-ایران-گیس-پائپ-لائن-منصوبہ-اور-پاکستان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org