0
Sunday 12 May 2019 18:57

ماہ مبارک رمضان اور تزکیہ نفس

ماہ مبارک رمضان اور تزکیہ نفس
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

ماہ مبارک رمضان تزکیہ و مغفرت کا مہینہ ہے، تعمیر ذات و تطہیر رو ح کا مہینہ ہے، اس مہینے میں جتنی زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ پورا معاشرہ اپنے معنوی خد و خال کو سنبھالے اور سماج کا فرد فرد راہ عبودیت پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر  یوں آگے بڑھے کہ دنیا کی زرق برق اور شیطانی وسوسے خود بخود ہی انکے عزم و ہمت کو دیکھ پیچھے ہٹ جائیں کہ انہیں راہ کمال سے ہٹانا ممکن، راہ بندگی پر پڑتے ہوئے انکے قدموں میں لغزش ممکن نہیں، اتنا ہی ہمارے سماج میں اس مہینے کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا نظر آتا ہے جتنا اس مہینہ کی حرمت ہے، اتنا ہی  ہمارے معاشرہ میں اس مہینہ کو لیکر کچھ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ لگتا ہی نہیں اس مہینہ کا کوئی تعلق تزکیہ نفوس سے بھی ہو سکتا ہے؟

راتوں کو جاگنا اور جاگ کر سڑکوں اور گلیوں کو آباد کرنا، دن کو  تادیر سونا اور یہ کہنا کہ کیا کیا جائے بھئی ماہ رمضان چل رہا ہے شیڈول الٹ پلٹ ہو گیا ہے، یہ سب کا سب توہین ماہ مبارک رمضان ہے، ایسے مہینہ کی توہین ہے جس  کا نام  اگر تک و تنہا لیا جائے اور لفظ ’’مبارک‘‘ نہ لگایا جائے تو خلاف ادب ہے۔ اسی لئے روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اگر تمہیں ’’ر مضان ’’کہنا بھی ہو تو ’’مبارک‘‘ کا لفظ پہلے لے آؤ۔ (1) جس مہینہ کے نام کا اتنا احترام ہے، اس مہینہ کا خود کتنا احترام ہوگا۔ لہٰذا ہمیں متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو غفلت میں ہم ایک ایسے مہینہ کو محض کھانے پینے اور شور شرابے کا مہینہ بنا ڈالیں جو مہینہ ہماری طہارت و پاکیزگی کا مہینہ ہے۔

ماہ مبارک رمضان طہارت روح اور تزکیہ کا مہینہ:
یہ وہ مہینہ جس میں انسان اپنی روحی آلودگیوں کو دور کر سکتا ہے، خود کو پاکیزہ بنا سکتا ہے، اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کی کوشش معمولی کوشش نہیں ہے، طہارت نفس کے لئے کوشاں ہونا معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو انبیاء الٰہی کا ہدف و مقصد رہا ہے۔ قرآن کریم نے تعلیم و تزکیہ کو ہدف انبیاء کے طور پر پیش کیا ہے۔ (2) تعلیم و تزکیہ انبیاء الٰہی کا وہ ہدف ہے جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب تزکیہ کی ضرورت نہیں رہی ہے یا پھر کل تزکیہ مشکل تھا آج آسان ہو گیا ہے، مثلا مقامات مقدسہ کی زیارت کو لے لیں، جس کی تزکیہ کے اندر اہم حیثیت ہے اور یہی زیارت پہلے مشکل سے ہوتی تھی، سفر کی مشکلیں اتنی تھیں کہ ہر ایک کے بس میں نہ خانہ خدا کی زیارت تھی نہ ہی دیگر مقامات مقدسہ کی، لیکن اب الحمدللہ سب آسان ہو گیا ہے۔

کتابیں اور قرآن کریم انسان کے ساتھ ہر وقت موبائل میں موجود ہیں، انسان موبائل میں پورا  کتابخانہ لئے گھومتا ہے جبکہ پہلے حالت ِ سفر وغیرہ میں یوں کتابوں سے استفادہ ممکن نہیں تھا، ٹھیک ہے کہ یہ آسانیاں ہوئی ہیں لیکن گناہوں کے وسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور تزکیہ کا راستہ مزید سخت ہو گیا ہے اور جیسے جیسے انسانی زندگی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے  انسان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان مشکلات کے درمیان حقیقی کامیابی کا تصور بھی بدل کر رہ گیا ہے، قرآن کریم نے انسان کی حقیقی کامیابی کو تزکیہ کے طور پر بیان کیا ہے۔ (3) جبکہ انسان مادیت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور حیف تو اس وقت ہے جب تزکیہ  و طہارت نفس کے مہینے میں بھی انسان تزکیہ نفس سے غفلت برتے۔

تزکیہ کیا ہے؟
ممکن ہے کوئی سوال کرے یہ تزکیہ ہے کیا؟ تو ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں "تزکیہ یعنی اپنی درونی صلاحیتوں کو نکھار کر راہ بندگی میں استعمال کرنا، رشد و کمال کی راہ پر چلنا"۔ اگرچہ اس لفظ کا استعمال درختوں کی کانٹ چھانٹ کے سلسلہ مین زیادہ استعمال ہوتا ہے، جب ایک باغبان کسی درخت کی دیکھ بھال کرتا ہے تو پہلے تو کوشش کرتا ہے ضروری مقدار میں پانی نور اور ہوا کی رسائی کو درخت کے لئے فراہم کرے، یہاں پر باغبان دو باتوں کا خیال رکھتا ہے، ایک تو یہ کہ پانی ہوا کے ساتھ  درخت کی جڑ میں کیڑے نہ لگیں، اسکا دھیان رکھتا ہے، روشنی پہنچتی رہے اسکا دھیان رکھتا ہے۔ دوسری طرف بے ڈھپ نکل آنے والی  شاخوں کو کاٹتا اور چھانٹتا ہے، انسان کے لئے بھی تزکیہ اسی معنی میں ہے اور ایجابی و سلبی پہلوؤں کا حامل ہے، کچھ چیزوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو اپنے اندر جذب کرنا پڑتا ہے۔

اس مہینہ میں خاص کر جب ساری چیزیں بندگی کے پھولوں کے کھلنے کے لئے بالکل آمادہ ہیں تو ہمیں کچھ چیزوں سے بچنا ہے اور کچھ چیزوں کو اپنے وجود میں اتارنے کے لئے کوششں کرنا ہے، اگرچہ تزکیہ کی ظاہری کیفیت چمن اور درختوں کی کیفیت سے مشابہہ ہے لیکن حقیقت میں ایک بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ درختوں یا چمن کو خود کوئی اختیار نہیں ہے، جیسا باغبان چاہے بنا دے، لیکن انسان کا تزکیہ ایسا نہیں ہے یہ خود اپنے لئے ماحول فراہم کر سکتا ہے اور ایسی فضا بنا سکتا ہے جس میں بہتر طور پر تزکیہ ہو سکے۔ سلبی چیزوں سے خود کو اپنے اختیار سے بچا سکتا ہے اور ایجابی چیزوں کو اپنے وجود میں اتار سکتا ہے، اسکے علاوہ ایک بڑی چیز اس کے وجود میں یہ ہے کہ اپنے تزکیہ کے امکانات کو خود فراہم کر سکتا ہے، ایک درخت اپنی رشد و نمو  کے لئے فضا فراہم نہیں کر سکتا، اسے ہر حال میں اپنے باغبان  کا انتظار کرنا ہے وہ جیسا چاہے بنا دے۔

لیکن انسان اپنا تزکیہ خود بھی کر سکتا ہے اور کسی صاحب نفس باغبان کے حوالے بھی کر سکتا ہے، کسی معلم اخلاق کے حوالے بھی خود کو کر سکتا ہے۔ اس ماہ مبارک رمضان میں بحمدللہ  اسکی معنویت و برکت کی بنیاد پر ہر طرف آپکو ایسے باغبان عالمان دینی کی صورت نظر آ ئیں گے جو ہماری اصلاح کر کے سماج و معاشرے کو ایک رخ اور ایک ڈھب دے سکتے ہیں، تقوٰی کی پھلواری میں سبکو سجا سکتے ہیں اور یہ اختیار بھی ہمیں دیا گیا ہے کہ ہم ان کے پاس کس طرح جائین اور کتنا استفادہ کریں، ایسے ماحول میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے اس طرح استفادہ کریں کہ تیس دن گزارنے کے بعد ہمیں اپنی روحانی بالیدگی کا احساس ہو سکے۔

اب اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ان کیڑوں سے دور رکھیں،جن سے ایک باغبان اپنے چمن کو دور رکھتا ہے اور چمن و درخت کے کیڑوں سے حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کھاد بھی فراہم کرتا ہے جو انکے لئے وٹامن کی حیثت رکھتی ہے، اور رشد و نمو میں تیزی لاتی ہے۔ خدائے سبحان نے ہمارے لئے ان تیس دنوں میں دعاؤں کی صورت میں، تلاوت قرآن کی صورت میں یہ کھاد فراہم کر دی ہے، لیکن یہ تب کام کرے گی جب ہم ان سماجی کیڑوں سے خود کو بچائیں جو تیزی کے ساتھ ہماری روح کے درخت کو کھا رہے ہیں اور  ہمیں ایسی جگہ لے جانا چاہتے ہیں جہاں ہم قابل تزکیہ نہ رہ جائیں۔ سماج و معاشرہ میں ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں بعض شہروں میں ٹورنامنٹ کا انعقاد، قرآنی کلاسز کی جگہ کیرم، بیڈ منٹن اور کرکٹ کے میچوں کا انعقاد اور جوان نسل کی اس میں بھرپور توجہ صاحبان فہم و فراست سے مطالبہ کر رہی ہے کہ سماج کی اصلاح کے لئے ایک باغبان کی صورت آگے  آئیں تاکہ ہم سب چمن اہلبیت اطہار علیھم السلام کے پھول بن کر دنیا بھر کو  معطر کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ لا تقولوا: هذا رمضان ولا ذهب رمضان  ولا جاء رمضان فإن رمضان اسم من أسماء الله عزوجل لا يجيئ ولا يذهب و إنما يجيئ و يذهب الزائل ولكن قولوا: شهر رمضان، فإن الشهر مضاف إلى الاسم، والاسم اسم الله عز ذكره وهو الشهر الذي أنزل فيه القرآن جعله مثلا وعيدا۔ الكافي - الشيخ الكليني - ج ٤ - الصفحة ٧٠
2۔ بقرہ، ۱۲۹، ٓل عمراان ۱۶۴۔ ا
3۔ شمس، ۹۔ ۱۰ ا
خبر کا کوڈ : 793848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش