0
Monday 13 May 2019 09:37

ریاست بچوں سے امتیازی سلوک نہ کرے۔۔۔۔!

ریاست بچوں سے امتیازی سلوک نہ کرے۔۔۔۔!
تحریر: تصور حسین شہزاد

انہی صفحات پر ہمارے صحافی دوست ابو فجر لاہوری نے کالم لکھا "پاکستان میں شیعہ زیر عتاب کیوں۔۔؟" اس کالم میں انہوں نے پاکستان میں شیعہ قوم کے منظم ہونے سے لیکر اب تک کی صورتحال کا احاطہ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ "ایران کے انقلاب کی درآمد کے خوف کے پیش نظر ہی پاکستان میں سابق آمر صدر اور جنرل ضیاء الحق نے ایک ایسی لابی تشکیل دیدی تھی، جس کا کام انقلاب پسندوں کی سرکوبی تھا۔ اس کام میں امریکہ اور سعودی عرب نے اس لابی کی بھرپور مالی معاونت کی اور یوں سرکوبی کا وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔" سوویت روس کیخلاف امریکہ کی جنگ میں بھی جب ضیاء الحق نے نام نہاد "جہاد" کا ٹھیکہ جنرل حمید گل اور جنرل عبدالرحمان کو سونپا تو اس میں بھی دیوبندی اور وہابی "مجاہدین" تیار کئے گئے اور ان مجاہدین سے بھی 2 کام لئے گئے، ایک تو ان سے امریکہ کیلئے جہاد کروایا گیا اور دوسرا کام جو جہاد سے فارغ ہو کر پاکستان لوٹتا اسے شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر لگا دیا جاتا۔

جنرل حمید گل اور ضیاء الحق کی باقیات شائد ابھی بھی اداروں میں موجود ہیں، جو آج تک اہل تشیع کو پاکستان میں مشکوک سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک جن لاپتہ شیعہ افراد کی حراست سے ادارے لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے، حتیٰ سپریم کورٹ جیسے بڑے ادارے کو بھی مِس گائیڈ کر رہے تھے کہ "بندے ہمارے پاس نہیں" آج انہی اداروں نے کراچی دھرنے کے بعد ان لاپتہ افراد کو رہا بھی کر دیا ہے اور باقیوں کو بھی جلد چھوڑ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہے، جس کا اپنا قانون ہے۔ وہ پاکستان کے آئین کو مانتی ہے نہ عدلیہ کو تسلیم کرتی ہے۔ وہ "اندرونی ریاست" صرف اپنی من مانی کرتی ہے۔ ملتِ جعفریہ پاکستان کیخلاف اب تک جو کچھ ہوا ہے، اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کے ادارے ہیں تو پاکستان کے، مگر کام کسی اور کیلئے کرتے ہیں۔ تنخواہ وہ پاکستان سے لیتے ہیں مگر خدمات وہ دوسرے ممالک کو دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیعیان پاکستان کیساتھ ایسا سلوک نہ روا رکھا جاتا۔

یہ عجیب حقیقت سامنے آئی ہے کہ جنہوں نے ماضی میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا، انہیں تو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور جنہوں نے اپنے وطن کی محبت میں وہ قرض بھی ادا کئے، جو واجب بھی نہیں تھے، انہیں دہشتگرد، غدار، ملک دشمن اور ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے اور مقدمات درج کروائے جا رہے ہیں۔ اداروں کی جانب سے پاکستانی شیعوں کیخلاف یہ بے بنیاد الزامات بھی انہیں اداروں کے اپنے خلاف چارج شیٹ بن گئے ہیں۔ بقول ان کے، اگر شیعہ غدار ہیں اور ہمسایہ ملک کے ایجنٹ ہیں تو وہ غدار اور ایجنٹ کیوں بنے؟؟ کوئی ادارہ اس سوال کا جواب دے گا؟ انہی کا رویہ ہی اس کا جواب ہے کہ جی شیعہ اس لئے غدار بنے کیونکہ انہیں ان کے محافظ ہی قتل کر رہے تھے۔ انہیں پاکستان بنانے کی سزا دی جا رہی تھی، جو پاکستان بنانے کے "گناہ" میں شریک نہیں تھے، پاکستان کی باگ ڈور اب ان کے ہاتھ میں تھمائی جا رہی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کی قوت کو توڑنے کیلئے کئی قسم کی سازشیں کی گئیں مگر کہتے ہیں کہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، بہتا ہے تو جم جاتا ہے

پاکستان میں بہنے والے بے گناہ خون کی تاثیر ہے کہ آج ظلم مٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان میں جتنی قوت سے شیعیت کو توڑنے کی کوشش کی گئی، یہ اس سے بھی زیادہ مضبوط ہوچکی ہے۔ اب اداروں کو ہی اپنی اداوں پر غور کرنا ہوگا۔ پاکستانی اہل تشیع کو پاکستانی ہی سمجھنا ہوگا۔ اگر اہل تشیع کو کوئی تحفظات ہیں تو ان کی بات سنی جائے۔ ان کے موقف میں جان ہوگی تو وہ قائم رہے گا، بے جان ہوا تو اپنی موت آپ مر جائے گا۔ دنیا کا کوئی قانون آپ کو یہ حق نہیں دیتا کہ آپ ماورائے آئین و قانون فیصلے کریں۔ آپ کو یہ بھی حق نہیں کہ آپ اپنی الگ سے عدالت لگا لیں، بلکہ پاکستانی شیعوں سمیت جتنے بھی مظلوم ہیں، سب کی بات سنی جائے۔

آپ خود کہتے ہیں کہ "جنگیں مسائل کا حل نہیں، مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا" جب آپ دوسروں کو یہ بات کہتے ہیں تو اپنوں کو بھی اسی معیار پر دیکھیں، ان کیساتھ بھی مذاکرات کرکے مسائل حل کریں۔ کوئی مجرم ہے تو اسے عدالت کے حوالے کریں، اس کی تقدیر کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ اگر آپ کو اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں تو اُٹھیں ان کو تالے لگا دیں، پاکستان کے عوام آپ کے اس اقدام کی حمایت کریں گے۔ مگر ایک ریاست میں اپنی الگ ریاست نہ بنائیں۔ پاکستان کے تمام شہری محب وطن ہیں، انہیں اپنے غلط رویئے کی وجہ آپ خود غدار بنا رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک سے دہشتگرد اور غدار بنانے کی فیکٹریاں بند کر دی جائیں، کیونکہ اس سے نقصان ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔

جب ریاست اپنے عوام کو اپنے بچوں کی طرح سمجھے گی، تو بچے بھی فرمانبردار بن جائیں گے۔ آپ بچوں کیساتھ امتیازی سلوک ختم کر دیں۔ بچے آپ کے ہاتھ چومیں گے، بچے ہمیشہ اسی ماں سے زیادہ محبت کرتے ہیں، جو ان کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ آپ دل بڑا کریں، مان لیں ماضی میں آپ سے غلطیاں ہوئی ہیں، اب سب بچوں کو "برابر" سینے سے لگائیں۔ پھر دیکھیں یہاں سے پراکسی وارز کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور ملک بھی ترقی کرے گا۔ تیز رفتاری روکنے کیلئے سپیڈ بریکر حل نہیں ہوتے، سوچ بنانا پڑتی ہے۔ جب آپ سوچ مثبت بنا دیں گے تو کوئی غدار پیدا نہیں ہوگا۔ پھر سب پاکستان کی ترقی کا سوچیں گے۔ ملک میں ترقی ہوگی تو آپ کے ادارے بھی بہتر انداز میں آگے بڑھیں گے۔ ملک میں غربت نے ڈیرے ڈال لئے تو آپ کے "میس" بھی دال روٹی پر ہی آجائیں گے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اعتماد کرنا سکھیں۔
خبر کا کوڈ : 793858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش