0
Saturday 18 May 2019 03:53

اسے جھوٹ سمجھیں یا بیانیہ

اسے جھوٹ سمجھیں یا بیانیہ
تحریر: نذر حافی

سچائی انسانیت کی روح ہے، تحمل معاشرے کا ستون ہے، اچھا اخلاق ادیان کا زیور ہے، لوگ دین اس لئے سیکھتے ہیں، تاکہ ان میں سچائی، تحمل اور اچھے اخلاق جیسی صفات پیدا ہوں۔ بدقسمتی سے اب دین اسلام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے کہ وہ سچائی کی بجائے جھوٹ، تحمل کی بجائے شدت پسندی اور حسنِ اخلاق کے بجائے بداخلاقی کے چلتے پھرتے پیکر ہیں۔ آپ دین اسلام کے ٹھیکیداروں کی خصوصی محافل سے لے کر ان کے سوشل میڈیا کے اکاونٹس تک آجائیں، آپ دیکھیں گے کہ سیکولر حضرات کو اتنے فراڈ اور جھوٹ نہیں آتے، جتنے دین کے ٹھیکیداروں کو آتے ہیں اور تحمل مزاجی اور اخلاق کے اعتبار سے بھی سیکولر حضرات ان نام نہاد دینی ٹھیکیداروں سے ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں۔ خود سے بیٹھ کر دوسرے مسالک کے خلاف جھوٹی خبریں گھڑنا، جھوٹے کلپ تیار کرنا، جھوٹے اور من گھڑت واقعات بیان کرنا، کوئی جھوٹ پکڑے جانے پر فوراً قسم اٹھا لینا، جھوٹ پھیلانے کے لئے کالم لکھنا، کالموں میں افتراء پردازی، تہمت اور گالیوں کا سہارا لینا، سادہ لوح لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئے مشتعل کرنا بلکہ خونریزی اور خودکش حملوں کے لئے تیار کرنا، یہ سب ان ڈرامہ باز اور نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں سے کوئی سیکھے۔

کہیں پر بھی چپقلش ان کی خاندانی، ذاتی، سیاسی، مالی، مسلکی، چندے یا فطرانے کی ہوتی ہے، لیکن یہ مخالف کو مشرک، گستاخ، کافر، زندیق اور واجب القتل قرار دے دیتے ہیں، ان کے فتووں کی بھینٹ کتنے ہی بے گناہ انسان چڑھ چکے ہیں، قاری سعید چشتی سے لے کر مشال خان تک، آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں سے لے کر داتا دربار اور بری امام کے زائرین تک، فوج کے جوانوں سے لے کر پولیس کے جوانوں تک اور مساجد و امام بارگاہوں سے لے کر مندروں تک، انہوں نے اپنے مسلکی مفادات کے لئے کسی قسم کے جھوٹ اور جارحیت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کو چیک کرنے کے لئے آپ ”ایران“ کا نام لیجئے، فوراً شروع کریں گے کہ ایران تو پاکستان میں اپنا شیعہ انقلاب نافذ کرنا چاہتا ہے، شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے، ان سے پوچھئے کہ ایران تو انقلاب سے پہلے بھی شیعہ تھا، اس وقت تو آپ نے ایران سے کبھی خطرہ محسوس نہیں کیا اور اگر ایران شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے تو کسی بھی ایرانی انقلابی عالم دین کا وہابیوں یا دیوبندیوں کے خلاف کوئی ایک جلسہ دکھا دیں کہ جس میں کافر کافر۔۔۔ کے نعرے لگائے گئے ہوں۔

کبھی بتا دیں کہ انقلاب ایران کے بعد ایران کے انقلابی علماء نے ایران میں نعوذ باللہ اہل سنت کی مساجد پر خودکش حملے کروائے ہوں، یا ان کی ٹارگٹ کلنگ کروائی ہو یا پھر الیکشن میں اہل سنت کو اسلام اور مسلمان ہونے کے بجائے ان کی مسلکی شناخت کے ساتھ انہیں الیکشن لڑنے پر مجبور کیا ہو، تاکہ وہ اقلیت محسوب ہوں۔ نہیں ہرگز نہیں، ایران میں اہلسنت کو وہی انسانی، دینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں، جو اہل تشیع کو حاصل ہیں اور ایران میں اہل سنت کو وہی مذہبی آزادی حاصل ہے، جو اہل تشیع کو حاصل ہے۔ چنانچہ اہل سنت اپنی مساجد میں یا اپنے بزرگوں اور اولیائے کرام کے مزارات اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہیں۔ نہ کسی کو مزارات پر حاضری دیتے ہوئے کوڑے مارے جاتے ہیں، نہ ہاتھ باندھنے یا کھولنے پر مشرک کہا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کبھی سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ کہا جاتا ہے اور نہ ہی آج تک کسی انقلابی عالم دین نے یہ کہا کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کہ ہم اہل سنت، یا کم از کم وہابی و دیوبندی حضرات کو کافر قرار دینے کے لئے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کریں گے، بلکہ ایران کے سپریم لیڈر نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اہل سنت کی دل آزاری اور مقدسات کی توہین حرام ہے۔

اب ان جھوٹ کی فیکٹریوں کی طرف آیئے، انہوں نے پاکستان کو جہنم بنا رکھا ہے، ایران سے اپنے بغض اور کینے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یہ راجہ بازار راولپنڈی میں دس محرم کو خود ہی حملہ کرکے اپنے ہی بندوں کو ہلاک کر دیتے ہیں، تاکہ ایران اور شیعوں کو بدنام کیا جائے، یہ پاکستان اور ایران کی جنگ کے دوران یہ خبریں پھیلاتے ہیں کہ ہندوستان کے طیارے ایران میں لینڈنگ کر رہے ہیں اور ایران اب اسرائیل سے مل کر پاکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ ارباب فکر و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کا دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ سعودی عرب ہے یا ایران۔ لیکن انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ انہوں نے، کلیسا، مسجد، امام بارگاہ، دربار، مزار، عالم دین، قوال، نعت خوان، ذاکر، بیوروکریٹ، پولیس افیسر، فوجی جوان، حتی کہ سکولوں کے ننھے منے بچوں سمیت کسی کو بھی معاف نہیں کیا اور پھر کہتے ہیں کہ ایران شدت پسندی پھیلا رہا ہے۔

البتہ یہاں سے تعجب کی بات شروع ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ڈیفنس کالجز کو لیکچر بھی دیتے ہیں، یعنی پاکستان کے پالیسی میکرز میں سے ہیں، ان کے باقی سب جھوٹ اپنی جگہ لیکن ان کا یہ دعویٰ کہ یہ لوگ پاکستان کے پالیسی میکرز ہیں یا نہیں، اس  کی سچائی یا جھوٹ کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ قارئین خود غور و فکر کریں کہ پاکستان میں اتنا خون بہنے اور قتل و غارت کے باوجود ہمارے سکیورٹی اداروں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آج پکڑے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق فلاں مسلک سے تھا اور انہیں فلاں ملک ٹریننگ دے رہا تھا، بلکہ ہمیشہ یہی کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اداروں نے کبھی بھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا کہ دہشت گرد کن مدرسوں کے تربیت یافتہ ہیں، ان مدرسوں کی فنڈنگ کہاں سے اور کیسے ہوتی ہے اور دہشت گردوں کے سرپرست اور سہولت کار کس مسلک سے مربوط ہیں اور کس ملک کے مفادات اور اشاروں پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں، ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔

لیکن گذشتہ دنوں پہلی مرتبہ سندھ پولیس کے کراچی میں ڈی آئی جی ایسٹ زون عامر فاروقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوری 2019ء سے مذہبی کلنگ ہو رہی تھی، متعدد افراد قتل ہوچکے ہیں، ایک گروہ متحرک ہوا ہے، جو پڑوسی ملک سے ٹریننگ حاصل کرکے آیا ہے۔ اگر یہ جھوٹ کی فیکٹریوں کا اثر اور ہمارے سکیورٹی اداروں میں ان کے نفوذ کا کرشمہ نہیں ہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ اب ہمارے ریاستی اداروں نے یہ بیانیہ تبدیل کر دیا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مسلک نہیں ہوتا۔ اب سارے دہشت گردوں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھی جانی چاہیئے، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہماری بربادی میں کس ملک اور کون سے مسلک کا کتنا حصہ ہے۔ ابھی عوام منتظر ہیں کہ نئے بیانیے کے مطابق چند دن پہلے داتا دربار پر ہونے والے حملے کے ذمہ دار کا مسلک اور اس کی سرپرستی کرنے والے ملک کا پتہ کب چلے گا۔

اسی طرح گذشتہ روز ہی مستونگ کے علاقے قابو کوہ مہران میں سی ٹی ڈی اور سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 9 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں، قوم بے تاب ہے کہ ان دہشت گردوں کے مسلک اور ان کی سرپرستی کرنے والے ملک سے جلد از جلد قوم کو آگاہ کیا جائے گا۔ حقائق جاننا قوم کا حق ہے، اپنے ملک کے دشمنوں کو پہچاننا حب الوطنی کا تقاضا ہے، بھائی چارے اور دوستی کے لبادے میں پاکستان کے سینے میں خنجر گھونپنے والوں کو بے نقاب کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب قوم کو یہ حق ملتا ہے اور کب حکومتی ادارے اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 794864
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش