0
Wednesday 22 May 2019 17:20

کیا میں اب بھی نہ بولوں؟

کیا میں اب بھی نہ بولوں؟
تحریر: روح اللہ طوری

ضلع کرم کے طوری بنگش قبائل کے ساتھ ناانصافی کی تاریخ اور وہ بھی انصاف فراہم کرنے والوں کی جانب سے، ویسے تو بہت پرانی ہے۔ جب ایجنسی ہونے کے ناطے یہاں 40 ایف سی آر کے نام سے کالا قانون نافذ تھا، اس وقت آئے روز ایک نئے معاہدہ کی شکل میں یہاں کے قبائل پر ایک نیا ظلم روا رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اگر کسی پولیس چوکی کے 50 گز کے احاطے میں کوئی واردات ہو جاتی تو اس کی ذمہ داری قریبی موضع کے رہائشیوں پر عائد ہو جاتی۔ خواہ وہ آبادی پانچ چھ کلومیٹر دور کیوں نہ ہوتی۔ لوگ گرفتار ہو جاتے اور کئی ماہ، حتیٰ کئی سال قید گزارنے کے بعد بھاری جرمانہ ادا کرکے جیل سے رہائی مل جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ قبائلی عوام نے ایجنسیوں کے نظام پر کے پی کے ضلعی نظام کو ترجیح دی۔ یوں انہوں نے اس نظام کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے دل و جاں سے قبول کیا۔

کے پی میں ضم ہو جانے پر عوام نے اس نظام سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ اب ناانصافی نہیں ہوگی، اب مجرم کے بدلے کسی دوسرے کو سزا نہیں ملے گی، اب بیجا جرمانہ دینا نہیں پڑے گا، اب سستا انصاف فراہم ہوگا، اب کسی کی اراضی پر بے جا قبضہ نہیں ہوگا۔ مگر کیا معلوم کہ قبائل کو لینے کے دینے پڑیں گے۔ فاٹا میں کسی حد تک تو میرٹ کا نظام رائج تھا۔ ضلع کرم کے تحت پہلی بھرتی ہی میرٹ کی بجائے مبینہ طور پر قرعہ اندازی کی بنیاد پر ہوئی۔ اس بھرتی کے دوران میرٹ، اہلیت اور علاقائی تمام روایات اور اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ عدالت کے لئے کلاس فور نوکریوں کیلئے انتہائی تعلیم یافتہ حتی بی ایس سی، ایم ایس سی لوکل پاراچنار کے جوانوں کو نظرانداز کرکے، پاراچنار سے 70 کلومیٹر دور علاقے بگن، مندوری اور اوچت کے نان لوکل، غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ افراد کو تعینات کیا گیا۔

امیدواروں نے جب متعلقہ ادارے سے رجوع کیا تو جواب ملا کہ قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور یہ کہ قرعہ اندازی کی بنیاد پر وہ لوگ اب باقاعدہ بھرتی ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے بار بار احتجاج کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، کیونکہ بھرتی خود انصاف فراہم کرنے والے جج ہی نے کی ہے۔ یہی نہیں، کرم میں اکثر فیصلے ماورائے عدالت ہوتے ہیں۔ بالش خیل کی اراضی پر غیر علاقے کے چمکنی اور ماسوزئی قبائل کے ناجائز قبضے پر سرکار نے مکمل طور پر چپ سادھ لی ہے۔ بار بار احتجاجات پر بھی ذمہ دارون کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ محکمہ مال میں تمام تر سرکاری ریکارڈ کے باوجود حکومت میرٹ کی بجائے دونوں متصادم قبائل کو مذاکرات کی پیشکش کرتی ہے۔ پاراچنار میں صورتحال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ملکیتی اراضی میں اس وقت تک مکان نہیں بنا سکتا، جب تک اس کے پاس سرکاری منظوری کے کاغذات نہ ہوں یا اگر کوئی چوری چھپے کام شروع بھی کرے، تو مطلع ہونے پر متعلقہ تحصیلدار اور محرر کو بھاری بھر رشوت ادا کرنا پڑتی ہے۔

ادھر بالش خیل میں خار کلی اور بالش خیل کی شکایت کے باوجود وہاں مسلسل آباد کاری ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں 50 رکنی شیعہ سنی قومی جرگے کے توسط سے آبادکاری روکنے کا مطالبہ ہوا، تو ڈی سی نے میٹریل لانے پر پابندی عائد کر دی اور یوں کسی حد تک آباد کاری رک گئی۔ تاہم دو دن بعد ہی جب چمکنی اور ماسوزئی قبائل نے احتجاج کیا اور اپنے علاقے میں دھرنا دیا تو اوپر خلا سے مجبور ہوکر ڈی سی نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے راستہ دوبارہ کھولنے کا حکمنامہ جاری کر دیا۔ یہ ہے نئے ضلعی نظام کی حالت۔ اب اس ضلع میں کوئی حکومت نہیں ہوگی بلکہ جس کی زمین اور مال پر قبضہ کرنا چاہیں، آپ آزاد ہیں۔ روکنے کا کوئی نظام اگر کہیں ہے بھی، تو وہ طوری اور بنگش قبیلے کے لئے ہے۔ یعنی طوری بنگش اگر کہیں زیادتی کریں تو وہ قابل مواخذہ ہے، مگر افغان نژاد طالبان نواز، نیم پاکستانی قبائل کیلئے کوئی قانون نہیں، تو کیا اب بھی میں خاموش رہوں؟ اور اب بھی میں نہ بولوں؟ فیصلہ آپ پر چھورتا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 795757
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش