0
Wednesday 22 May 2019 18:27

چین سے امریکی پریشانی کی وجوہات(1)

چین سے امریکی پریشانی کی وجوہات(1)
تحریر: لیاقت علی انجم

مغربی ذرائع ابلاغ میں آج کل چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کیخلاف ایک مہم شروع ہوچکی ہے، ہواوے کو چین کا ''بی سی سی آئی'' بنانے کی کوششوں کے پیچھے ٹیکنالوجی چوری قوانین کی خلاف ورزی جیسے بہانے نہیں بلکہ چین کی مجموعی اقتصادی اور سائنسی ترقی کے مضمرات کارفرما ہیں۔ چین کی یہ ترقی عالمی اقتصادی نظام پر امریکی اجارہ داری کے خاتمے کی بنیاد سمجھی جا رہی ہے۔ چینی کمپنیوں کے ہاتھوں امریکہ کمپنیوں کو منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ چینی کمپنی ہواوے کیلئے گوگل اینڈرائیڈ سمیت دیگر سروس بھی ختم کرنے کی دھمکی بھی دی گئی، جس پر عملدرآمد ہوتے ہوتے رہ گیا، گوگل نے چینی کمپنی کو نوے دن تک ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوے دن کے بعد پھر کیا ہوگا کیونکہ جنگ ابھی شروع ہوچکی ہے۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جب عالم اسلام کے سب سے بڑے بنک بی سی سی آئی (بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل) کیخلاف امریکی سی آئی اے نے اس وقت کے صدر جمی کارٹر اور سینیٹر جان کیری کی قیادت میں بھرپور مہم چلائی اور آخر میں اسے مکمل ختم کرنے میں کامیاب بھی ہوئی۔ بی سی سی آئی سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے عالمی سامراجی اداروں کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔

اب چین سے صرف ایک سیکٹر نہیں بلکہ امریکہ کی تمام اجارہ دار کمپنیوں کی بقاء کو خطرات لاحق ہیں، انہی کمپنیوں اور اداروں کی مدد سے امریکی سامراج دنیا بھر میں اپنے اہداف حاصل کرتا ہے۔ گویا امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی ہے، تاہم سویت دور کی سرد جنگ سے ذرا مختلف ہے۔ سویت یونین ایک مکمل ٹیکنالوجی سٹیٹ تھا، سویت یونین کی معاشی حالت بھی ٹھیک تھی، انجینئرنگ، سٹیل، عسکری اور خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں روس امریکہ سے آگے تھا۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے صرف دو سال بعد ہی سویت یونین نے ایٹم بم بعد میں ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرکے باقاعدہ سپر پاور ہونے کا اعلان کیا، یہی وجہ تھی کہ دونوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اپنا ہمنوا بنانے اور اپنا اپنا نظام مسلط کرنے کی کشمکش ہوتی رہی۔ اس کے مقابلے میں چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ قدیم یونانی مورخ کے بقول ''پہلے سے موجود طاقت کا نئی ابھرتی طاقت کے ساتھ تصادم ہمیشہ ہی ناگزیر ہوتا ہے۔''

 ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں صنعتی ترقی عروج پر تھی، ملائشیا اور جنوبی کوریا سے ہم آگے تھے۔ بعد میں آنے والی حکومتوں اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاسی نظام نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ گذشتہ روز ہی میرے ایک دوست جو پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، بتا رہے تھے کہ کوٹ لکھپت میں موجود پیکو فیکٹری دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیکٹری دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ فیکٹری بننے جا رہی تھی، چین اور جاپان کی حکومتیں اپنے ملازمین کو ٹریننگ کیلئے بیکو بھیجتی تھیں، اب تک یہ کمپنی جہاز بھی بنا چکی ہوتی، لیکن بھٹو کے نیشنلائزیشن نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ اب اس فیکٹری کا سکریپ باقی ہے، جہاں لوہے کے ٹکروں پر لگا زنگ ملکی سیاست اور حکومت پر قابض اشرافیہ کے اس ملک کے ساتھ ظلم پر ماتم کر رہا ہے۔ پاکستان کی یہ ترقی سیاست کی نذر ہوگئی، لیکن چینیوں نے ترقی کو سیاست سے دور رکھا۔

چین میں منظم معاشی اصلاحات کا آغاز اسی کی دہائی سے شروع ہوا، جب پہلی مرتبہ انہوں نے اپنی مارکیٹ کو عالمی سرمایہ کاروں کیلئے کھول دیا۔ تب سے لے کر آج تک چین نے جو کچھ کر دکھایا، وہ پورے مغرب کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ یہ خواب اب حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ ایک پاگل کتے کی طرح کبھی ادھر، کبھی ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ چین نے تین عشرے تک مکمل خاموشی کے ساتھ دنیا کی ہر ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنایا، اس دوران صنعتی ترقی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ دنیا حیران ہے اور ہر معاشی کامیابی کے پیچھے چین کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ چینی قیادت کو معلوم تھا کہ جب تک آپ معاشی طاقت نہ بن جائیں، تب تک خاموشی کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور کسی بھی تنازعہ سے خود کو دور رکھنا ہے۔

چینی اشرافیہ نے معاشی اصلاحات کو سیاست کی نظر ہونے سے بچانے کیلئے انتظامی آمرانہ نظام مسلط کر رکھا ہے، جہاں حکومتی اقدامات پر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں یہ حالت ہے کہ ایک ڈیم پچاس سال تک سیاست کی نذر ہو جاتا ہے، پھر بھی نہیں بنتا، چاہے پورا ملک پانی کے شدید بحران میں مبتلا ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کا نظام حکومت چند سیاسی اشرافیہ کے گرد گھومتا ہے، جہاں اگر ایک سیاسی خاندان کی بھی مرضی شامل نہ ہو تو بائیس کروڑ لوگوں کی بنیادی ضرورت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں چین میں ایک مربوط اور منظم نظام ہے۔ چینی حکومت نے عوام کو کاروبار کے ایسے جال میں پھنسا دیا ہے کہ انڈسٹریلائزیشن کا پورا معنی چین پر ہی اترتا ہے۔ آج کل ہواوے کا جو تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے، یہ اسی خطرے کی گھنٹی ہے، جو امریکی سامراج نے محسوس کیا ہے، لیکن تب تک بہت سا پانی سر سے بہہ چکا ہے۔

حالیہ امریکی اقدامات مرنے سے پہلے آخری کوشش کے طور پر ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔ ٹرمپ ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ معاشی دہشتگردی کے ذریعے دوسرے ملکوں کو زیر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چینی قیادت نے اس ہتھکنڈے کا ادراک کرتے ہوئے خود کو معاشی طور پر امریکہ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ آئندہ دس سال میں چینی کرنسی امریکی ڈالر کی جگہ لینے کی پیشگوئیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ 2011ء کے اوائل میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی کی موجودہ رفتار جاری رہی تو 2021ء تک چین کی معیشت امریکی معیشت کے برابر آجائے گی۔ چینی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا حال یہ ہے مغربی اور مشرقی حصوں میں پانچ کروڑ سے زائد خالی گھر مکینوں کی راہ تک رہے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ یہ گھر سی پیک اور ون بیلٹ روٹ کے تناظر میں بنائے گئے ہیں۔

چین کا خیال ہے کہ جب سی پیک مکمل طور پر فعال ہوگا اور چینی مصنوعات سی پیک روٹ سے پوری دنیا کو سپلائی ہونا شروع ہو جائیں گی تو اس وقت مغربی اور مشرقی سرحدوں پر تجارتی سرگرمیاں حد سے زیادہ بڑھ جائیں گی، اس وقت سرمایہ کاروں اور تاجروں کی سہولت کے پیش نظر کروڑوں مکانات پہلے ہی تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ چینی معیشت میں ترقی کی متاثر کن شرح کا ایک راز کھربوں یو آن مالیت کے وہ ریکارڈ حد تک قرضے بھی ہیں، جو چینی بینک ہر ماہ عام شہریوں کو دیتے ہیں۔ گذشتہ سال جون کے مہینے میں ان قرضوں کی مالیت ڈیڑھ کھرب یو آن سے زیادہ رہی۔ چین کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مئی 2016ء میں 779 ارب ڈالر تھے، جو جون میں بڑھ کر 793 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے، دسمبر 2018ء کے اختتام پر چین کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3.073 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال صرف جون کے مہینے میں چینی بینکوں نے ملکی صارفین کو مجموعی طور پر 1.55 کھرب یو آن کے قرضے جاری کیے، جو اپنی مالیت میں 227 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتے تھے۔

اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق مختلف تجارتی بینکوں کی طرف سے عام چینی شہریوں کو دیئے جانے والے ان قرضوں کی مالیت گذشتہ سال جون کے مہینے میں ماہرین کے اندازوں سے کہیں زیادہ رہی۔ مئی میں چینی بینکوں نے ملکی صارفین کو مجموعی طور پر 1.11 کھرب یو آن کے قرضے جاری کیے تھے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ جون میں ان قرضوں کی مالیت بڑھ کر 1.2 کھرب یو آن ہو جائے گی۔ لیکن اب سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ان ماہانہ قرضوں کی مالیت بہت زیادہ ہو کر 1.55 کھرب یو آن ہوگئی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ 2016ء میں چینی بینکوں نے شہریوں کو پورے سال کے دوران جو نئے قرضے دیئے تھے، ان کی کْل مالیت قریب 13 کھرب یو آن یا 1.9 کھرب امریکی ڈالر بنتی تھی، جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ سوست بارڈر سے چین جانے والے گلگت بلتستان کے تاجروں کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل سرحد سے متصل چینی شہر تاشغرغن ایک دیہات کی طرح تھا، پانچ سال بعد اس شہر کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے، بلند و بالا عمارتیں، کئی کلومیٹر پر محیط اور ہیڈ برج کی تعمیر اور ہزاروں شاپنگ مالز بن گئے ہیں، تجارتی سرگرمیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں، جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ شہر پانچ سال پہلے والا شہر ہے یا کوئی اور؟

 ٹیکنالوجی کے میدان میں دیکھا جائے تو صرف سمارٹ موبائل فون تیار کرنے والی دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں سے صرف ایک امریکی، 2 جنوبی کوریا اور 6 چینی کمپنیاں ہیں، ہواوے سمارٹ فون بنانے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی ہے، لیکن آئی ٹی مصنوعات تیار کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ گذشتہ سال اگست میں سمارٹ فون کی فروخت میں چین کی ہواوے نے امریکی کمپنی ایپل کو پیچھے چھوڑ دیا، بین الاقوامی ڈیٹا کارپوریشن (آئی ڈی سی) کے مطابق گذشتہ سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران سمارٹ فونز کی فروخت کے اعتبار سے جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر رہی، جس کے 71.5 ملین (7 کروڑ 15 لاکھ) سمارٹ فون فروخت ہوئے جبکہ چین کی کمپنی ہواوے امریکی الیکٹرانکس کمپنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 54.2 ملین (5 کروڑ 42 لاکھ) سمارٹ فونز کی فروخت کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ دنیا بھر میں فروخت ہونے والے سمارٹ فونز میں سام سنگ، ہواوے اور ایپل کا حصہ بالترتیب 20.9 فیصد، 15.8 فیصد اور 12.1 فیصد رہا۔ اگر چین کی دوسری کمپنیوں کو بھی شامل کیا جائے مثلاً اوپو، شیاؤمی، ویوو، ون پلس کی مصنوعات کو ملا لیا جائے تو دنیا بھر میں فروخت ہونے والے سمارٹ فونز میں چین کا حصہ 50 سے 60 فیصد بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 795762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش