2
4
Saturday 25 May 2019 13:09

امتوں کے زوال کے اسباب، اول مظلوم کائنات امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی نگاہ میں(1)

امتوں کے زوال کے اسباب، اول مظلوم کائنات امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی نگاہ میں(1)
تحریر: ملک محمد اشرف
malikashraf110@gmail.com

ایک واضح اور بدیہی قانون ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہوا، ہو رہا ہے یا ہو گا وہ علل و اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب و علل ہی ہیں جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا یا اس کے فاسد و زائل ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ کسی معاشرہ، قوم یا امت کا عروج یا زوال بھی اسباب و علل کے تحت ہوا کرتا ہے۔ جب امت میں بدعملی، بدخلقی، غفلت، بےراہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے، تاریخ نے ایسے کئی مناظر اپنے اندر محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ امتوں کے عروج و زوال کی داستانیں قرآن مجید، پیغمبر اکرم (ص) اور معصومین (ع) کے کلام میں جابجا موجود ہیں، جن پر فکر کرنے سے سنن الٰہی کے سنہرے اصول مل سکتے ہیں، چونکہ ہمارا موضوع "امتوں کے زوال کے اسباب" نہج البلاغہ کی روشنی میں ہے، اس لئے زیادہ تر امیرالمومنین حضرت علی (ع) کے کلام مبارک کی روشنی میں ہی امتوں کے زوال کے اسباب پر بحث کریں گے۔ اگرچہ بنیادی طور پر امتوں کے زوال کے اسباب امام علی (ع) کے کلام میں تلاش کریں تو ایک لمبی فہرست بنتی ہے لیکن ہم اپنے مقالے کی گنجائش کو مدنظررکھتے ہوئے صرف چند بنیادی اسباب بیان کریں گے۔ اصل بحث میں داخل ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ  امت، زوال اور سبب کے مفاہیم کو روشن اور واضح کریں۔

۱) الہیٰ نمائندہ کی اطاعت نہ کرنا:
تاریخ میں جب بھی الٰہی نمایئدہ چاہے وہ نبی ہو یا امام، یا نبی و امام کا نمائندہ ہو، امت یعنی انسانوں کے گروہ کی طرف سے اس کی پیروی نہ کی گئی ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تکذیب بھی کی گئی ہو تو اس امت اور انسانوں کے گروہ کا زوال اور سقوط حتمی شکل اختیار کر لیا کرتا ہے۔ امت مسلمہ محمدیہ سے پہلے کی امتوں نے جب اپنے اپنے زمانے میں الٰہی نمایندہ اور الٰہی رہبر کی پیروی نہ کی تو زوال اور سقوط ان کا مقدر ٹھرا۔ امت حضرت موسی ہو یا امت حضرت عیسٰی یا قوم نوح ہو یا قوم ثمود، عاد و لوط یا بطور مطلق بنی اسرائیل جب انہوں نے انبیاء الٰہی کی تکذیب کرنا شروع کی بلکہ ان کو قتل کیا تو تباہی و بربادی اور زوال و سقوط ان امتوں کا مقدر ٹھرا۔ حضرت نوح کی قوم نے جب ان کی تکذیب کی تو تب اللہ نے اس امت پر عذاب کیا، حضرت نوح کی تمام دعوت کے باوجود یہ لوگ منکر رہے۔ اس کا ذکر اللہ نے سورہ نوح میں یوں فرمایا ہے: ''نوح'' نے کہا،پروردگارا! میں نے اپنی قوم کو رات دن (تیری طرف) دعوت دی۔۔ لیکن میری دعوت نے حق سے فرار کے علاوہ ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ وہ ایمان لے آئیں تاکہ تو انہیں بخش دے، تو انہوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں، اوراپنے لباس سے چہروں کو ڈھانپ لیا، اور مخالفت پر اصرار کیا، اور شدّت کے ساتھ استکبار کیا۔ اس کے بعد میں نے انہیں ظاہر بظاہر (توحید اور تیری بندگی کی طرف ) دعوت دی۔ پھر میں نے علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر بھی انہیں تیری طرف بلایا۔(1)

امت مسلمہ کی اکثریت جو  اب تک کئی مشکلات کا شکار ہے اس کی ایک بنیادی وجہ  پیغمبر اسلام کے  بعد حضرت علی (ع) کی رہبریت اور امامت  سے انکار ہے۔ کوفہ کے لوگوں کی بھی بدبختی اور گمراہی کا اصلی سبب امام (ع) کی اطاعت نہ کرنا ہے۔ اس کے بعد اس گروہ کی تقدیر میں زلت و رسوائی کو ایسے ہی رکھ دیا گیا جیسے یہود کے لئے زلت و رسوائی مقدر بنی تھی۔اس سے بڑھ کر اس امت کا زوال اور بدبختی کیا ہو سکتی ہے کہ معاویہ جیسا شخص اپنے آپ کو خلیفۃ الرسول ثابت کرتا ہے اور چالیس سال اسلامی معاشرہ اور امت مسلمہ کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اس میں سے بیس سال پورے عالم اسلام پر اس کی حکومت ہوتی ہے اور ۲۰ سال  صرف شام کا طاقتور حکمران ہوتا ہے۔ کیا الٰہی نمایندہ کی رہبری کو ترک کرنے کی یہ سزا نہیں ہے  کہ یزید، ابن زیاد، مروان اور مروان کے نالائق بیٹے امت مسلمہ کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے حالات تدریجی طور پر نمودار ہوتے ہیں جب علی (ع) جیسے امام حق کہ جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا کہ، "عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ"۔(2) "عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْحَقِ‏ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ وَ الْحَقُّ يَدُورُ حَيْثُ مَا دَارَ عَلِيٌّ"۔(3) وہی علی امت رسول کے سامنے یہ فرماتا ہوا نظر آتا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ میں کل تک امر و نہی کا مالک تھا اور آج دوسروں کے امر و نہی پر مجھے چلنا پڑ رہا ہے۔(4)

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں، میں نے تمہیں جہاد کے لئے ابھارا، لیکن تم (اپنے گھروں سے) نہ نکلے۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کے لئے پکارا اور للکارا لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو، حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو، میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کے لئے تمہیں آمادہ کرتا ہوں، تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولاد سبا کی طرح تتر بتر ہو گئے ہو۔ (5) امت مسلمہ یا کوفہ کے خاص گروہ جو امام کو امام ماننے کے باوجود امام کی پیروی نہیں کر رہا تھا، یہاں پر امام علی (ع) ان کو اولاد سبا کے ساتھ نسبت دے رہے ہیں۔ امام یا نمائندہ الٰہی کی رہبریت ہی سے مرکزیت باقی رہتی ہے۔ امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے اردگرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی  گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے۔ امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، اگر امت اس حیثیت کو قبول نہ کرے تو ایسے زوال کا شکار ہوتی ہے کہ اس سے نکلنا اس کے بس میں نہیں رہتا  اور ہمیشہ سرگردان رہتی ہے۔ لوگ بدیہی ترین چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔

امت موسی نے ولی خدا اور نبی خدا کی نافرمانی کی تو کئی سال ریگستانوں میں سرگردان رہے، حتٰی کہ ۱۹۴۸ء سے پہلے تک ان کا مشخص امت ہونے کی حیثیت سے کوئی مستقل محل نہیں تھا۔ امام (ع) فرماتے ہیں۔ تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی، کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم  بے راہ روی کی زحمتوں سے  بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ  اتار پھینکتے۔ حضرت علی کی رہبری  کا انکار کرنے سے اور پھر خصوصا کوفہ کے لوگوں کا امام (ع) کی اطاعت کماحقہ نہ کرنے سے جو انسانیت کو اور خصوصا امت مسلمہ کو نقصان ہوا، آج بھی اس نقصان کا احساس کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ جمل، جنگ صفین اور واقعہ کربلا، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں مظالم اور قتل و کشتار کا صحیح تجزیہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اب تک امت مسلمہ کی زبون حالی جو ہے اور روز بروز غیروں کی غلامی اور الٰہی قوانین کے اجراء دراصل  صالح اور اسلامی اصولوں کے مطابق قیادت اور رہبری کی پیروی نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

۲) اختلاف و تفرقه
کسی امت یا قوم و ملت کے زوال کا ایک بنیادی عنصر آپس کا اختلاف اور تفرقہ بندی ہے، اسلام میں اتحاد اور اتفاق پر بہت زور دیا گیا ہے قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔(6) ایک اور جگہ پر ارشاد ہے،"وَلا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّنات"‏(7)۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اہل حق، حق کا دفاع کرنے کے لئے آپس میں متحد نہیں ہوتے، جبکہ اہل باطل، باطل کی حمایت میں آپس میں ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ درد ہے جسے امام (ع) یوں بیان کرتے ہیں، تعجب ہے تعجب ہے! خدا کی قسم دل بیٹھا جاتا ہے اور غم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ باطل پر رہ کر متحد ہیں اور تم حق پر ہوکر بھی الگ الگ ہو۔(8) بسر یمن پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔(9)

جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو امام (ع) کے اس فرمان کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ قوموں کے زوال و تنزلی اور بدحالی کے تقدم و تخلف میں آپسی اختلاف و انتشار اور تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت کلیدی رول ادا کرتے ہیں، چاہے کوئی ملت اور قوم حق پر ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں تفرقہ بازی ہے، تو اسکے نصیب میں زوال ہو گا اور اگر باطل پر ہے لیکن متحد ہے تو ظاہری فتح اس کے حصہ میں آئے گی۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اقوام و ملل کے اندر جب تک اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، نیز ساتھ ہی ساتھ اتحاد و اتفاق اور اجمتاعیت کے فقدان کی وجہ سے ان قوموں کا نام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ اس بات کی طرف امام (ع) یوں متوجہ فرماتے ہیں۔ "غور کرو !کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا، خیالات یکسو اور دل یکساں تھے او ران کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے، تو اس وقت ان کا کیا عالم تھا ،کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے؟ اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑگئی، یکجہتی درہم برہم ہو گئی۔ ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے، تو ان کی نوبت یہ ہوگئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائش ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت بن کر رہ گئیں۔(10)

اسماعیل کی اولاد اسحاق کے فرزندوں اور یعقوب کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو۔ حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں۔ ان کے منتشر و پراگندہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رونما ہوئے، ان میں فکر و تعامل کرو کہ جب شاہان عجم اور سلاطین روم پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے خار دار جھاڑیوں، ہواؤں کی بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخرکار انہیں فقیر و نادار اور زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا باشندہ بنا چھوڑتے تھے۔ ان کے گھر بار دنیا جہاں سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیوں سے تباہ حال تھے، نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پر و بال کا سہارا لیں، نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں۔ ان کے حالات پراگندہ ہاتھ الگ الگ تھے، کثرت و جمعیت بٹی ہوئی، جانگدار مصیبتوں اور جہالت کی تہہ بہ تہوں میں پڑے ہوئے تھے، یوں کہ لڑکیاں زندہ درگور تھیں (گھر گھر مورتی پوجا ہوتی تھی) رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اورلوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری تھی۔

آج امت مسلمہ کے افراد ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہیں، مگر آپس کے تفرقہ و اختلاف کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ بےجان مٹی کا ڈھیر ہیں البتہ مٹی میں بھی اگر جان ہو تو بڑے بڑے تن آور شجر پیدا کر کے سائباں تو مہیا کرتی ہے، مگر اب پوری ملت اسلامیہ کے وجود کی مٹی شاید اس سے بھی گئی گزری ہے۔ ہمارے حکمران  اسلام اور کمالات کی جانب جانے اور ملتوں و امتوں کو لیکر جانے سے بےحسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حمیت اور غیرت ِدینی دم توڑ چکی ہے، انہیں دین و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ امت مسلمہ کے سرکردہ ممالک امریکا اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں اور کئے ہوئے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ٹرمپ سعودیہ عرب کو اہمیت دے کر ایران کے خلاف استعمال کر رہا ہے  اور خود ٹرمپ یہودیوں کا آلہ کار ہے۔ یہود و نصاری امت مسلمہ کے لئے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوئے، لیکن ہمارے سرکردہ افراد ان کے غلام بنے ہوئے ہیں، یہ سب ہمارے آپس کے تفرقہ اور اختلاف کا نتیجہ ہے۔ آج استعمار کی بلند مدت پالیسیوں اور اسٹریٹجی کی بنیاد پر کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج دنیا میں چار سُو کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھرے لاشے، کٹے اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت اور امت سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھلیں گی اس مردہ بےضمیر امت کی آنکھیں؟ البتہ یہ سب کچھ سزا جو مل رہی ہے اس کی ایک بنیادی وجہ امت مسلمہ کے آپس کے اختلافات اور تفرقہ بازی و  ایک مرکزیت کا نہ ہونا ہے۔ امت مسلمہ کی بطور عموم اور پاکستان کی ملت تشیع کے اندر مختلف قسم کے جاہل، خودغرض اور دین کی ابجد سے بھی ناواقف افراد ملت کو دن بدن تقسیم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
1۔ سورہ نوح، آیت ۵ تا ۹
2۔ امالی شیخ طوسی مجلس 17
3۔ مناقب آل ابی طالب، ابن شهرآشوب ج 3 ص 62
4۔ نهج البلاغه، خطبہ ۲۰۶  
5۔ نہج البلاغہ، خطبه 182 
6۔ سورہ آل عمران آیت ۱۰۳
7۔ آل عمران، 105
8۔ نہج البلاغہ، خطبه 27
9۔ نہج البلاغہ، خطبه 25
10۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۰
خبر کا کوڈ : 796261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
قبلہ ان حالات میں اتحاد و وحدت پر لکھیں اور ملی وحدت کیلئے چند فارمولے پیش کریں، تاکہ وحدت کی فضا قائم ہوسکے۔ جب چند فارمولے سامنے رکھیں گے تو ان شاء اللہ کسی ایک پر اتفاق ہو ہی جائےگا۔
Asad Raza Dhaku
Pakistan
بہت خوب تحریر ہے
ہماری پیشکش