0
Monday 27 May 2019 12:39

سینچری ڈیل، سازش کیا ہے؟

سینچری ڈیل، سازش کیا ہے؟
تحریر: ایل اے انجم

2006ء میں حزب اللہ اسرائیل جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گیا، اسرائیل نے جب لبنان میں اندھا دھند بمباری شروع کر دی تو اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے ببانگ دہل کہا تھا کہ یہ نئے مشرق وسطیٰ کا جنم ہے، لیکن کنڈولیزا رائس کا نیا مشرق وسطیٰ بنت جبیل کے میدان میں دفن ہو کر رہ گیا۔ اسرائیل کو اپنی طاقت پر ہمیشہ ناز رہا ہے، خصوصاً 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد خطے میں اسرائیلی عسکری طاقت کا نفسیاتی دبائو پیدا ہوگیا، جس کے نتیجے میں تمام عرب ممالک احساس کمتری کا شکار ہوگئے اور اسرائیل کو ناقابل شکست سمجھتے ہوئے اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن 33 روزہ جنگ نے خطے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔

حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصویر پاش پاش کر دیا، یوں صیہونی ریاست اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوامی اور سرکاری طور پر اپنی شکست کا برملا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئی۔ حزب اللہ کی بے مثال استقامت نے تین چیزیں دیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل کا ناقابل شکست ہونے کا تصور پاش پاش ہوگیا۔ دوسرا اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو نئی جہت ملی اور مقاومت نے نیا رخ اختیار کیا۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ نے جنگ کا روایتی تصور پر بھی تبدیل کرتے ہوئے مزاحمتی قوتوں کو نیا راستہ فراہم کیا ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی ریاست نے کئی مواقع پر میدان جنگ سے فرار ہونے میں عافیت جانی، اس طرح پوری صیہونی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مثال کے طور پر 2006ء کے بعد سے اب تک کئی مواقع پر اسرائیل نے غزہ پر بدترین بمباری کی، لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔

حال ہی میں مئی کے اوائل میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جھڑپ ہوئی، صیہونی فورسز نے غزہ پر شدید بمباری کی، اس کے جواب میں حماس نے اسرائیل کے شہروں پر کئی سو راکٹ فائر کیے، کئی راکٹ ٹھیک نشانے پر لگے حتیٰ کہ تل ابیب کو بھی نشانہ بنایا گیا، اسرائیل کا آئرن ڈوم پچاس فیصد راکٹوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوا، نتیجے کے طور پر پس پردہ مصری حکومت کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے جنگ بندی کروائی گئی۔ حماس اور اسرائیل کی حالیہ جھڑپوں کا ایک اور نتیجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی مزاحمتی قوتوں کو صیہونی ریاست کے مقابلے میں نفسیاتی برتری حاصل ہوگئی ہے، اسرائیل شدید تر نفسیاتی دبائو میں ہے۔ خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب شام اور عراق میں امریکہ اور صیہونی سرمایہ کاری سے وجود میں آنے والی داعش کا صفایا ہوچکا ہے، امریکہ و صیہونی ساختہ دہشتگرد گروہوں کا اتنے کم وقت میں صفایا ہونا خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

مزاحمت کے اس نئے پہلو سے صیہونی حکومت شدید پریشان ہے اور مستقبل میں خطے کا منظرنامہ واضح طور پر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اس پریشانی کا حل سینچری ڈیل کی صورت میں نکالا گیا ہے۔ ڈیل کے حوالے سے اب تک منظر عام پر آنے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس بدنام زمانہ معاہدے کے اہم کرداروں میں عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور بحرین کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ منصوبے کے تحت سعودی اور امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے فلسطینیوں کو ابتدائی طور پر بڑے معاشی پیکج کا لالچ دے کر مزاحمت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے، آنے والے وقتوں میں سعودی عرب کے ذریعے مختلف فلسطینی گروہوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں بھی کی جا سکتی ہیں، کم از کم کسی ایک گروہ کو اس ڈیل پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ صورتحال ابھی سے واضح ہو رہی ہے، اسلامی مزاحتمی بلاک کا کڑا امتحان شروع ہوچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 796471
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش