0
Tuesday 28 May 2019 15:36

نئی شورش، نیا فتنہ اور سدباب

نئی شورش، نیا فتنہ اور سدباب
تحریر: طاہر یاسین طاہر

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

میر درد کے شعر کی کیفیت آج کل پورے سماج پر طاری ہے۔ جو کچھ پی ٹی ایم کی قیادت نے پشتونوں کے تحفظ کے نام پر کیا، یہ سراسر غداری ہے، بغاوت اور دہشت گردی ہے۔ مولوی صوفی محمد کی کالعدم شریعتِ محمدی اور ملا فضل اللہ نامی دہشت گرد نے بھی اپنی ابتدائی دہشت گردانہ یا ریاست مخالف سرگرمیوں کا آغاز یونہی کیا تھا۔ ان کا طریقہ کار البتہ مختلف تھا۔ وہ مذہب کے بیوپاری تھے۔ وہ فتوے کی زبان میں بات کرتے تھے اور ریاستی نطام کو " کافرانہ" نظام کہتے تھے۔ پی ٹی ایم کی قیادت، منظور پشتین، محسن علی داوڑ اور علی وزیر کا طریقہ کار مختلف ہے۔ انہوں نے لسانی اور قبائلی معاملات کی چھڑی گھمانا شروع کر دی ہے۔ پی ٹی ایم یکایک سامنے آئی۔ اس وقت جب کراچی میں مبینہ طور پر رائو انوار نے نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا تھا۔ قبائلیوں نے اسلام آباد پریس کلب اور ملک بھر میں احتجاج کیا، نہ صرف قبائلی افراد بلکہ دیگر پاکستانیوں نے بھی اس المناک واقعہ کے خلاف سخت رنج و غم کا اظہار کیا۔

منظور پتشین، محسن علی داوڑ اور علی وزیر سمیت عائشہ گلالئی نے، لیکن اس واقعے کو پشتونوں کی نسل کشی سے جوڑتے ہوئے باقاعدہ ایک تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ یہ تحریک اس تیزی سے مقبول ہوئی کہ محسن علی داوڑ اور علی وزیر فاٹا سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوگئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اپنے اپنے حلقہ انتخابات میں کیا کیا عہد و پیمان کیے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ پی ٹی ایم نے فوج، سکیورٹی کے دیگر اداروں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ موقف اپنایا۔ اس امر میں قطعی کلام نہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے پشتونوں اور قبائلیوں کے جان و مال کے تحفظ کے نام پر بڑے بڑے جلسے کیے اور ایک دو لانگ مارچ بھی کیے۔
 اس وقت بھی جبکہ اس تحریک کے جلسوں میں فوج مخالف نعرے لگتے تھے، فوج کی اعلیٰ قیادت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے منظور پشتین وغیرہ کو اپنے بچے قرار دیا اور کہا کہ ان سے بات چیت کی جائے گی اور انھیں سمجھایا جائے گا۔ ریاست کی نرمی کو مگر انھوں نے اپنی طاقت سے تقابل کیا اور گذشتہ سے پیوستہ روز وہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوا، جس کے نتائج کا سوچ کر بھی انسانی سریر کانپتا ہے۔

کچھ دن قبل پاک فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کی قیادت کو وارننگ بھی دی تھی کہ وہ غیر ملکی عناصر کے ہاتھوں کھیلنے سے باز رہیں۔ گذشتہ روز مراد سعید نے بھی قومی اسمبلی میں سوال اٹھایا کہ محسن داوڑ بتائیں کہ ان کا این ڈی ایس سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ وزیر دفاع نے کہا کہ ریاست ماں جیسی ہے، مگر کسی گروہ کو لاقانونیت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چیک پوسٹ پر متعین اہلکاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی۔ یہ بات تشویش ناک ہے کہ بلوائیوں کے ایک گروہ کی قیادت قومی اسمبلی کے دو منتخب اراکین کر رہے تھے۔"شاید ففتھ جنریشن وار جسے کہا جاتا ہے، اس کے خدوخال یہی ہیں۔" پاکستان لمحہ لمحہ نازک صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہاں ذمہ دار اور فطین سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ ملک کو گذشتہ 15 سالوں سے جتنا خطرہ داخلی محاذ سے ہے، اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کو دو ٹوک انداز میں "سمجھایا" جائے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہ صرف روکے، بلکہ پاکستان کے اندر کسی پراکسی کو ہوا دینے میں را اور دیگر ایجنسیوں کا معاون نہ بنے۔

پاکستانی سماج کے حوصلے بلند ہیں، یہ ایک پہلو ہے لیکن مسلسل جنگ، خودکش دھماکوں اور بالخصوص جنھیں پاکستانی اپنی جان سے عزیز تر سمجھتے ہیں، افغان بھائیوں نے جو روش اختیار کر لی ہے، اس سے سماج میں ہیجان بھی پیدا ہوا ہے اور افغانوں کے خلاف غصہ بھی بڑھا ہے۔ پشتونوں کا مسئلہ کیا ہے کہ انہیں پشتون تحفظ موومنٹ بنانا پڑی؟ میں سمجھتا ہوں کہ قومی سلامتی کے اداروں کو اس تحریک اور اس کے تانے بانے طشت ازبام کر دینے چاہئیں، تاکہ پوری قوم جان سکے کہ ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ قبائلیوں کی بحالی بے شک ریاست کی ترجیح ہے، مگر اس وقت منظور پشتیین، علی وزیر، محسن علی داوڑ اور عائشہ گلالئی کہاں تھے؟ جب محسود قبیلے کا حکیم اللہ محسود دہشت گردوں کی کمان کر رہا تھا؟ اس وقت یہ لوگ کہاں تھے، جب قبائلیوں نے غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنے گھروں کے تہہ خانے کرائے پر دیئے ہوئے تھے؟ اور ڈالروں میں کرایہ وصول کرتے تھے؟ داعش ہو یا کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا کوئی بھی لسانی و مذہبی شدت پسند تنظیم، ان کی ضرورت وقفے وقفے سے لاشیں گرتے رہنا ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ پی ٹی ایم نے اپنے زیر حراست ممبر قومی اسمبلی کی رہائی کے لیے کسی دھرنے وغیرہ کا اعلان کیا ہے۔ لیکن قبائلیوں کے سرکردہ رہنمائوں نے گذشتہ سے پیوستہ روز پیش آنے والے واقعے کے بعد پی ٹی ایم سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

سوات، مینگورہ، شمالی و جنوبی وزیرستان میں اٹھنے والے فتنوں کے بعد یہ ایک نیا لسانی و علاقائی فتنہ سامنے آیا ہے۔ مسلح دہشت گردوں کو ہم نے شکست فاش دی، دشمن نے نئی چال چلی اور پختون نسل کشی کا بیانیہ بیچنے کی کوشش میں لگ گیا۔ یہ فتنہ اگر سر اٹھاتے ہی کچل دیا جاتا تو اسے پذیرائی نہ ملتی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس تنظیم کے عالمی محافظوں اور سہولت کاروں کے نام اور اس تنظیم کو دیئے گئے اہداف سامنے لائے جائیں، تاکہ کوئی پختون، پشتونون کی نسل کشی کے نام پر کسی پروپیگنڈے میں نہ آئے۔ یہ وہی قبائلی ہیں جنھوں نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں پناہ دی ہوئی تھی۔ کیا اس وقت انھیں علم نہیں تھا کہ جہاں دہشت گرد ہوتے ہیں، وہاں فورسز کارروائیاں بھی کرتی ہیں۔ اللہ نہ کرے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ تنظیم مزید جارحیت کا مظاہرہ کرے گی، اور اب کی بار اس کا مورچہ سوشل میڈیا ہوگا، جہاں سے یہ لوگوں کو پاک فورسز اور پاکستان کے خلاف ذہن سازی کرے گی۔ اس فتنے کے نئے حربے کے سدباب کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات اٹھائے جانا بہت ضروری ہیں۔
خبر کا کوڈ : 796776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش