0
Friday 31 May 2019 04:35

یہ جو باطل سے انکار کر رہے ہیں، یہی مسلمان ہیں

یہ جو باطل سے انکار کر رہے ہیں، یہی مسلمان ہیں
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
 
محترم، دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معبودیت کا اقرار کرنے سے پہلے ان تمام کا انکار کرنا پڑتا ہے کہ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خدائی کے دعویدار ہوں یا کوئی انہیں خدا تسلیم کرانے پہ بضد ہو۔ پہلے ''انکار'' ہے، اقرار تو بعد میں ہے۔ تمام جعلی خداؤں کی پہلے نفی کرو، اس کے بعد اللہ رب العزت، پرورگار کی وحدانیت، حقانیت ، معبودیت کی گواہی دو۔ انکار کی اہمیت و حیثیت آپ اس طرح نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کو آپ کی ہی زبان میں بتائے دیتے ہیں۔ یہ جو فرشتہ تھا، اب شیطان ہے۔ اس نے عرشی بلندیوں سے شیطانی پستیوں تک کا سفر ایک ''اقرار'' میں طے کیا یا ایک ''انکار'' میں۔؟ وہی ایک لفظ انکار جو اسلام کے آفاقی دائرے میں داخل کرتا ہے۔ وہی ایک لفظ یعنی انکار فرشتوں کو بھی شیطان کے درجے تک لے آتا ہے۔ دونوں ''انکار'' میں فرق کیا ہے۔ محض اتنا فرق ہے کہ ایک انکار باطل کا ہے، کہ جب تک باطل سے انکار نہیں تب تک اسلام کے دائرہ میں تو کیا، اس کے قریب بھی پھٹک سکتے۔

دوسرا انکار ''حق '' سے ہے، حکم خداوندی سے ہے۔ اگر حق سے انکار کیا، حکم خداوندی کی عدولی کی تو چاہے فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ شیطان بن جاتا ہے اور شیطان ایک دو دن کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شیطان رہتا ہے اور اسلام میں شیطان کی حیثیت یہ ہے کہ شیطان کو صرف دل ہی دل میں برا سمجھنا کافی نہیں ہے، اسے زبان سے برا بھلا کہنا بھی کافی نہیں ہے، بلکہ دین اسلام کا پانچواں بنیادی رکن اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا کہ جب تک شیطان کو پتھر نہ مارے جائیں اور ایک پتھر بھی نہیں بلکہ ایک ایک کرکے بار بار پتھر مارنے کا حکم ہے۔ 

محترم: جب آپ کو معلوم ہے کہ جعلی خداؤں کا انکار کئے بغیر مسلمان رہنا تو کجا اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ آپ کو یہ بھی خبر ہے کہ حکم خداوندی سے، حق سے انکار کرنے پہ آپ شیطان قرار پا سکتے ہیں، چاہے آپ فرشتے ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ دین مبین میں شیطان سے رو رعایت تو درکنار اسے برا بھلا کہنے تک محدود رہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ بنیادی رکن کی تکمیل کیلئے شرط شیطان کو کئی مرتبہ پتھر مارنا ہے۔ تو پھر آپ یہ کوشش کیوں کرتے ہیں جعلی خداؤں کا انکار کئے بغیر مسلمان بھی رہیں، حق سے منہ پھیر لیں اور شیطان نما بھی نہ ہوں اور شیطان کو پتھر مارے بغیر حج بھی کرلیں، حاجی بھی کہلائیں تو محترم یہ آپ کی خوش فہمی پہ مبنی گمراہ کن کوشش تو ہو سکتی ہے۔ دین محمدی (ص) کی تعلیمات ہر گز ہرگز نہیں ہو سکتیں۔ 
 
جناب: دین مبین کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ہر جعلی خدا کا انکار کرو۔ آپ کے نزدیک عصر حاضر کا جعلی خدا کون ہے۔؟ کون ہے کہ جو خود کو سب سے اعلیٰ اور بڑی طاقت قرار دینے پہ مصر ہے۔؟ کون ہے کہ جو دنیا کے آزاد باسیوں کو اپنا محکوم سمجھتا ہے۔؟ کیا تمہیں دیکھائی نہیں دیتا کہ طاقت کے غرور میں ڈوبے اس جعلی خدا نے کئی ممالک کو تہہ و بالا کر دیا ہے اور گنتی کی چند بچی کچھی ریاستوں کیلئے بھی دانت نکوس رہا ہے۔ اگر تم مسلمان ہو یا مسلمان بننا چاہتے ہو، یا مسلمان رہنا چاہتے ہو تو پھر عصر حاضر کے اس جعلی خدا کا انکار کیوں نہیں کرتے۔ ؟زبان سے گواہی خدائے واحد کی دیتے ہو، تابعداری اس نام نہاد سپر پاور امریکہ کی کرتے ہو۔

اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر سے پوچھو تو سہی کہ رب کائنات کے احکامات کی بجاآور ی زیادہ کی ہے یا امریکی احکامات کی۔ امریکہ نے کہہ دیا فلاں کو مارو۔ آپ نے نعرہ لگا لیا، فلاں کو مارنا تو جہاد بھی ہے اور ثواب بھی ہے۔ اسی نعرہ کا ہی نتیجہ ہے کہ بیشتر مسلمان ریاستیں تباہ ہو گئی ہیں۔ چھوڑیں، تابعداری اور احکامات کی بجا آوری پہ مبنی اس فہرست کو یہ اتنی طویل ہے کہ اس تحریر میں سمونا ممکن نہیں۔ یہ جو اسلام کے حصول کیلئے ''انکار'' چاہیئے اس کی تاب آپ میں نہیں ہے۔
 
اچھا، جتنا آپ کے پاس ہے، اتنے ایمان سے بتائیں کہ اسرائیل اور فلسطین میں سے حق پہ آپ کسے سمجھتے ہیں اور غاصب ،باطل کسے سمجھتے ہیں۔؟ اگر اسرائیل کو باطل سمجھتے ہیں تو اس کے خلاف صدائے حق بلند کیوں نہیں کرتے۔ فلسطین کے حق میں قیام کیوں نہیں کرتے۔ کیا تمہیں فلسطین میں ہونے والا ظلم دیکھائی نہیں دیتا جبکہ جس اسلام کے نام کو بار بار تم استعمال کرتے ہو۔ اسی اسلام نے ایمان کے درجوں کی تقسیم سجدوں سے نہیں کی بلکہ اس بات سے کی ہے کہ تم ظلم کے خلاف کس حد تک قیام کرتے ہو۔ ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ ہی یہی ہے کہ ظلم کرنے والے ہاتھ کو اپنے قوت بازو سے روک دو۔ یہ نہ کرسکو تو ببانگ دہل ظلم کو ظلم کہو۔ ایمان کا آخری درجہ جسے پست درجہ کہا گیا ہے وہ تو یہ ہے کہ ظالم کو ظلم کو کم از کم دل میں برا ضرور سمجھو۔

اب یہ بتاو کہ یہ جو نام نہاد او آئی سی یعنی اسلامی ممالک کی پوری تنظیم ہے، یہ ایمان کے کس درجے پہ فائز ہے کہ کشمیریوں کو تہہ تیغ کرنے والے بھارت کو مہمان خصوصی کے طور پر بلاتی ہے۔ اسلامی ممالک کو شرکت کی دعوت نہیں دیتی۔ آپ اس نام نہاد اسلامی فوج کے ایمان کا اندازہ لگائیں کہ اس کی تخلیق کی پہلی نشست کی سربراہی امریکی صدر ٹرمپ نے کی۔ یعنی جس سے انکار لازم ہے، اسے آقا قرار رے رہے ہیں اور جس کو پتھر مارنے ہیں، اسے رفیق قرار دے رہے ہیں۔ حیرانگی یا تف تم سے زیادہ ان مسلمانوں پہ ہے کہ جو اسلام کے نام پہ جاری اس مذاق کو خاموشی سے برداشت کئے جارہے ہیں۔
 
باتوں میں بات آ گئی ہے۔ آپ کو بھی بخوبی دیکھائی دیتا ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ انگار کی طرح سلگ رہا ہے۔ آپ گاہے بگاہے یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اس سارے معاملے کے پیچھے صہیونیوں کا وہی ''فرات سے نیل'' تک کا شیطانی ایجنڈا کار فرما ہے۔ اب تو اسی اسرائیل کی کارستانیاں پڑوسی بھارت سے وطن عزیز کے بلوچستان تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ صہیونیوں کی شیطانی منصوبہ بندی میں ایک کے بعد ایک اسلامی ریاست کو تباہ کرنا ہے۔ دین محمدی (ص) کی تعلیم تو یہ ہے کہ شیطان کو پتھر مارو، ایک بار نہیں بلکہ بار بار مارو۔ تم اپنے باقی ماندہ ایمان کی سلامتی کیلئے بار بار نہ سہی ایک بار تو اسرائیل نامی اس شیطان کو کوئی پتھر مارو۔ ایک تو تم خود دور جدید کے اس شیطان کو پتھر نہیں مارتے اور پھر جو حزب اللہ صبح شام اس شیطان کو اپنے پتھروں کے نشانے پہ رکھتی ہے، تمہیں اس سے چڑ ہے۔ جس کی سربراہی میں کثیر ملکی اسلامی اتحاد تشکیل دیا گیا، اسی ملک کے ولی عہد بن سلمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بقاء کیلئے شام میں امریکہ کی موجودگی ضروری ہے۔

اندازہ لگائیں جو اسلامی فوجی اتحاد کا پیشوا ہے، وہ شیطان کی بقاء، ایک اسلامی ملک میں جعلی خدا کی موجودگی کو لازم قرار دے رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یمن کے جن قبائل نے یہ نعرہ لگایا کہ'' الموت امریکہ، الموت اسرائیل''۔ عرصہ کئی برس سے یمن کے وہ شہری اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے دعویدار سعودی عرب اور اس کے ساتھیوں کی بمباری کے نشانے پہ ہیں۔ کہاں تو فلسطین کی آزادی کیلئے الہی تحریکیں اور کجا امریکہ و سرائیل کے تابعداروں کا مسئلہ فلسطین پہ ساز باز۔ کئی ممالک ملکر عرصہ کئی سال سے بمباریاں کرنے کے باوجود غریب یمن کے پسماندہ قبائل سے فقط ایک نعرہ الموت لا امریکہ، الموت لاسرائیل کا نعرہ نہیں چھین سکے۔ تو صدی کی ڈیل کے یہ کردار فلسطین پہ ساز باز کیسے کر سکتے ہیں۔ 

محترم، ان لوگوں کو تو مسلمانوں کی پیشوائی، عالم اسلام سے اخلاص سے قبل اپنا ایمان ثابت کرنا ہوگا۔ کیا فلسطین ان عرب شہزادوں کی کوئی ذاتی جاگیر ہے کہ یہ اسرائیل کو اجازت دیں کہ جہاں مرضی یہودیوں کی آباد کاری کرو۔ کیا مظلوم فلسطینی ان کی باج گزار رعایا ہیں کہ انہیں کہیں اور منتقل کرنے کا حامی بھریں۔ اصول دنیا ہے کہ کوئی بھی تنازعہ اس وقت تک تنازعہ ہی رہتا ہے کہ جب تک دونوں مخالف فریق آپس میں اسے حل نہ کریں۔ چاہے یہ حل میدان جنگ میں ہو یا مذاکرات کی کرسی پہ۔
 
آج جمعة الوداع ہے۔ بیت المقدس سے منسوب دن ہے یہ۔ آج کے دن دین محمدی کے حقیقی پیروان یعنی جعلی خداؤں کا ہر نہج پہ انکار کرنے والے نماز جمعہ کے بعد ریلیوں ، جلسوں، جلوسوں کی صورت میں دنیا کے کونے کونے میں نکلیں گے۔ یہ اللہ رب العزت کی سپر میسی کا اعلان کریں گے۔ یہ جعلی خداؤں بشمول نام نہاد سپرپاور امریکہ کا انکار کریں گے۔ یہ عصر حاضر کے شیطان یعنی اسرائیل کو نابود کرنے کا عزم بھی ظاہر کریں گے اور اس کی نابودی میں دامے درمے سخنے حصہ ڈالنے کا عہد بھی کریں۔ یہ حق یعنی فلسطینیوں کا ساتھ دینے کا حلف بھی دیں گے اور صرف فلسطین ہی نہیں یہ کشمیر، افغانستان، یمن، شام ، عراق ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت کا اعلان بھی کریں گے۔ سچ پوچھیں تو مجھے تو یہی لوگ مومن و مسلمان دیکھائی دیتے ہیں۔ جو ظلم کو مسترد کرتے ہیں۔ ظالم سے اظہار برائت کرتے ہیں۔ نام نہاد خداؤں و سپرطاقتوں کو مسترد کرکے انہیں جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں ،مظلوم کے ساتھ اور حمایت میں ہر حد تک جانے کو تیار ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو شیطان کو پتھر مارتے بھی ہیں اور مزید پتھر مارنے کا فقط ارادہ ظاہر نہیں کرتے بلکہ اسے آنے والے چند برسوں میں نابود کرنے کی قسمیں لیتے ہیں ۔؟

محترم : آپ فیصلہ کریں ۔ آپ نے آج کیا کرنا ہے ۔ ان مومن مسلمانوں کے ساتھ ملکر ہر باطل سے انکار کا اعلان کرنا ہے یا آپ نے یونہی تابعدار رہنا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بات کسی حد تک ایمان کی بھی ہے۔ حق کے اقرار اور باطل سے انکار کا دن ہے ۔ یہ یوم القدس۔ اللہ رب العزت اس ہستی کو غریق رحمت کرے کہ جس کی طفیل یہ آپ کو نصیب ہوا۔اس کی قدر کریں۔ یہ بھی ایک لحاظ سے نعمت خداوندی ہے۔
خبر کا کوڈ : 797150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش