1
Sunday 2 Jun 2019 13:51

ماسکو میں جاری افغانستان امن مذاکرات

ماسکو میں جاری افغانستان امن مذاکرات
تحریر: سید نعمت اللہ

روس کے دارالحکومت ماسکو میں مختلف افغان گروہوں کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں۔ یہ مذاکرات ایک ماہ پہلے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونا تھے لیکن آخری لمحات میں کینسل کر دیے گئے۔ اگرچہ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ مذاکرات کینسل ہونے کی وجہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے حکومتی وفد میں موجود چند افراد کی مخالفت تھی لیکن بعض حکومت مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے جان بوجھ کر اپنے وفد میں ایسے افراد کو شامل کیا تھا تاکہ مذاکرات معطل ہو جائیں۔ اب روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغان امن مذاکرات کا نیا دور منعقد ہوا ہے جس میں ملک کی معروف سیاسی شخصیات بھی موجود ہیں اور پہلی بار اس میں طالبان کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے بھی شرکت کی ہے۔ دوسری طرف ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ روس اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی گولڈن جوبلی بھی منائی جا رہی ہے۔
 
ماسکو میں منعقد ہونے والی اس مذاکراتی نشست کا اہم ترین نکتہ اس میں ملا عبدالغنی برادر کی شرکت ہے۔ وہ طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ گذشتہ برس اکتوبر کے مہینے تک پاکستان میں قید تھے لیکن طالبان کے پرزور اصرار کے بعد انہیں رہا کیا گیا تھا۔ وہ افغانستان میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمائے خلیل زاد سے مذاکرات کیلئے تشکیل پانے والے طالبان کے وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔ وہ جیل سے آزاد ہونے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں بھی شریک تھے لیکن ہر گز میڈیا کے سامنے نہیں آئے۔ ماسکو کے مذاکرات میں ان کی شرکت نہ صرف اعلانیہ ہے بلکہ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت بھی کی ہے۔ ان کی گفتگو میں دو اہم ترین نکات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے کئی بار "امارت اسلامی افغانستان" کی اصطلاح استعمال کی اور دوسرا یہ کہ انہوں نے افغانستان میں امن کے آغاز کیلئے وہاں سے جارح قوتوں کے مکمل انخلا پر زور دیا۔
 
یوں ملا عبدالغنی برادر نے طالبان کا موقف واضح کر دیا ہے اور ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ایک طرف افغانستان کے موجودہ سیاسی نظام کو قبول نہیں کرتے جبکہ امن کے قیام کیلئے اپنی پیشگی بنیادی شرط سے پیچھے ہٹنے پر بھی تیار نہیں۔ یہ وہی دو بنیادی نکات ہیں جن پر طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں بھی شدید تاکید کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان خود کو کمزور نہیں سمجھتے جس کے باعث مذکورہ بالا دو نکات سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین اس مذاکراتی نشست میں افغانستان کی معروف سیاسی شخصیات کی شرکت اور ملا عبدالغنی برادر کے پرتپاک استقبال کو ان کی جانب سے طالبان کے وجود کو تسلیم کئے جانے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی نتیجہ ہے جو عبدالغنی برادر نے ان مذاکرات میں اعلانیہ طور پر شریک ہو کر حاصل کیا ہے۔ اس لحاظ سے طالبان کو ان مذاکرات کا حقیقی فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔
 
ماسکو میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں دوسرا فریق افغان حکومت خاص طور پر افغان صدر محمد اشرف غنی پر مشتمل ہے۔ جس طرح قطر میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی موجود نہیں تھی اسی طرح ماسکو میں بھی حکومت کا کوئی نمائندہ نظر نہیں آ رہا اور دونوں مذاکراتی نشستوں میں افغان حکومت تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اگرچہ سننے میں آیا ہے کہ دوحہ مذاکرات کی رپورٹ افغان حکومت کو بھی ارسال کی گئی ہے لیکن افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کی جانب سے ٹرمپ حکومت اور زلمائے خلیل زاد کے خلاف سخت بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوحہ مذاکرات سے راضی نہیں ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ماسکو میں انجام پانے والے مذاکرات کی مخالفت کا بھی اظہار کیا ہے اور طلوع نیوز ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران ان مذاکرات میں شریک افراد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق صدر حامد کرزئی پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
 
دوسری طرف حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دیگر سیاسی مخالفین کی جانب سے ماسکو امن مذاکرات کے بارے میں ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اشرف غنی ہی افغانستان میں امن کے مخالف ہیں اور ان کی حکومت سے امن کی توقع رکھنا بے جا ہے۔ یوں حذیف اتمر، محمد یونس قانونی، محمد محقق، کریم خلیلی، عطا محمد نور اور حتی خود حامد کرزئی جیسے افراد ماسکو کی مذاکراتی نشست میں شریک ہو کر خود کو امن کا حامی ظاہر کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا طرہ امتیاز ہے جس سے اشرف غنی محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح روس اب تک افغانستان کی معروف سیاسی شخصیات اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی دو نشستیں منعقد کروا کر خود کو افغانستان میں امن مذاکرات کا اہم کھلاڑی ثابت کر چکا ہے۔ اس بات کی اہمیت اس وقت زیادہ اجاگر ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمائے خلیل زاد اب تک طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی چھ خفیہ نشستیں منعقد کروانے کے باوجود کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر پائے۔
 
منبع : جوان آنلاین
خبر کا کوڈ : 797555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش