QR CodeQR Code

بازی الٹ بھی سکتی ہے

6 Jun 2019 21:04

اسلام ٹائمز: نئے آنیوالے صدر نے ایک انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنیکا اعلان کر دیا، اوباما دور میں ایران سے طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور ایران کی درآمدات، بالخصوص اسکی تیل کی درآمدات پر پابندی لگا کر دنیا کے کئی ممالک کو ایک دوراہے پر کھڑا کر دیا۔ ایران بھی ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کی بنیاد پر اس نئی صورتِحال کا مقابلہ کرنے کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں نکل آیا ہے۔ امریکہ نے اس دفعہ اندازے کی جو غلطی کی ہے، شاید وہ اسکی آخری غلطی ہو۔ لگتا ہے اب کی بار وہ ایران کے گرد گھیرا ڈالنے کے چکر میں خود اسکے گھیرے میں آگیا ہے۔ آبنائے ہرمز کی اس تنگنائے سے نکلنا اب اس کیلئے مشکل ہے۔


تحریر: تنویر حیدر سیّد

امریکہ جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت سمجھتا ہے، اپنے مفادات کے حصول کے لیے ’’فوجی مداخلت“ کا آپشن ہمیشہ اپنی میز پر رکھتا ہے، حالیہ دو تین عشرے اس کی دوسرے ممالک کے خلاف جارحانہ کارروایوں سے بھرے پڑے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو دوسرے ممالک کی خود مختاری پامال کرنے کے لیے استعمال کیا، اس کی کہانی ہر کسی کی زبانی سنی جا سکتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کے درمیان گرم جنگ، سرد جنگ میں بدل گئی۔ بالآخر سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اس سرد جنگ کے بادل عالمی فضاؤں سے چھٹ گئے۔ کچھ عرصہ تک عالمی سیاست میں سٹیٹس کو  کی صورتِ حال برقرار رہی اور پھر نیا ملینیم شروع ہوگیا۔

نئے ملینیم کے آغاز پر تقویمِ تاریخ میں گیارہ ستمبر 2011ء کا دن آیا، جب زمیں بوس ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے اٹھنے والے دھویں نے عالمی فضا کو مکدر کر دیا۔ یہ دھواں جب دنیا پر بسنے والوں کی آنکھوں سے چھٹا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاؤں کے نیچے جو زمین تھی، وہ نہیں رہی، جو نائن الیون کے واقعے سے پہلے تھی۔ اس نئی دنیا میں امریکہ کی جھگڑالو فطرت نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور دنیا کو ایک بار پھر گرم جنگ کے میدان میں دھکیل دیا۔ اب کی مرتبہ یہ جنگ بڑی طاقتوں کے مابین نہیں لڑی گئی بلکہ یہ معرکہ ایک بڑی طاقت اور کئی چھوٹی طاقتوں کے درمیان تھا۔ ان چھوٹی طاقتوں کو طاقت کہنا شاید طاقت کے معنی کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ اس بار امریکہ نے ”کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے“ کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے عالمی نقشے پر کمزور ممالک کو تلاش کرکے ایک فہرست بنائی اور اس فہرست میں اسے جو سب سے زیادہ کمزور ملک نظر آیا، اس پر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دی۔

امریکی ستم کا پہلا نشانہ بننے والا ملک افغانستان تھا۔ افغانستان کے بعد امریکہ کی میرٹ لسٹ پر آنے والا اگلا ملک عراق تھا۔ عراق کے بعد وہ ایران کو مشقِ ستم بنانا چاہتا تھا، جو اس کا اصل ہدف تھا، لیکن یہاں معاملہ ذرا مختلف تھا۔ یہاں اسے ایک سو ایک بار سوچنا پڑا۔ اپنے سابقہ تجربات سے مستفید ہوتے ہوئے امریکہ نے بالآخر فیصلہ کیا کہ ایران پر براہِ راست حملہ کرنے سے قبل ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم  حزب اللہ کا خاتمہ کیا جائے، جو اس کی نظر میں نہایت آسان تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے اسرائیل کو استعمال کیا، لیکن اپنے منصوبے کی تکمیل کے اس مرحلے پر اسے غیر متوقع ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کو اس جنگ میں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ 2006ء کی اس جنگ میں امریکہ براہِ راست کودنے سے باز رہا، لیکن اس کا جنگی جنون ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ شام کی خانہ جنگی نے ایک بار پھر اسے موقع فراہم کیا کہ وہ عالمی پیمانے پر اپنی رٹ بحال کرنے کے لیے اس جنگ میں براہِ راست کود پڑے، لیکن عین آخری لمحات میں ایران، روس اور حزب اللہ نے اسے سمجھا دیا کہ ذرا بچ کے!

افغانستان سے شروع ہونے والی امریکی جارحیت کے اس سفر میں امریکہ نے کیا کھویا اور کیا پایا، اگر اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ امریکہ نے اپنی جارحیت سے ان ممالک کے حصے میں تباہی تو دے دی، لیکن اس تباہی کے عوض اس کے ہاتھوں میں کچھ نہ آیا۔ البتہ یہ ہوا کہ ان علاقوں سے اٹھنے والی مقاومت کی تحریکوں نے امریکی قوت کا وہ سحر توڑ دیا، جو کبھی اقصائے عالم میں سر چڑھ کر بولتا تھا۔ امریکہ لاکھ کوششوں کے باوجود ان خطوں کا جغرافیائی نقشہ اپنی مرضی کے مطابق ڈیزائن نہ کرسکا۔ نتیجے کے طور پر صدر اوباما نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی مہم جوئی سے باز رہنے میں ہی عافیت سمجھی اور ایران سے ایٹمی سمجھوتہ کر لیا۔ اسی دور میں اوباما حکومت نے اسرائیل سے امریکہ کے تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لینا شروع کیا۔

صدر اوباما کے بعد امریکی صدارتی نظام نے امریکی عوام کو ایک ایسا صدر دیا، جس نے اسرائیل کو اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے ایک بار اپنے شانے فراہم کر دیئے۔ نئے آنے والے صدر نے ایک انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کر دیا، اوباما دور میں ایران سے طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور ایران کی درآمدات، بالخصوص اس کی تیل کی درآمدات پر پابندی لگا کر دنیا کے کئی ممالک کو ایک دوراہے پر کھڑا کر دیا۔ ایران بھی ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کی بنیاد پر اس نئی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں نکل آیا ہے۔ امریکہ نے اس دفعہ اندازے کی جو غلطی کی ہے، شاید وہ اس کی آخری غلطی ہو۔ لگتا ہے اب کی بار وہ ایران کے گرد گھیرا ڈالنے کے چکر میں خود اس کے گھیرے میں آگیا ہے۔ آبنائے ہرمز کی اس تنگنائے سے نکلنا اب اس کے لیے مشکل ہے۔
مہرے بدل بھی سکتے ہیں
بازی  الٹ بھی سکتی ہے


خبر کا کوڈ: 798292

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/798292/بازی-الٹ-بھی-سکتی-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org