0
Thursday 20 Jun 2019 12:07

قبائلی اضلاع کے انتخابات میں اُمیدواروں اور سپورٹرز کی سرد مہری

قبائلی اضلاع کے انتخابات میں اُمیدواروں اور سپورٹرز کی سرد مہری
تحریر: این علی

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں 18 دنوں کی تاخیر کی وجہ سے الیکشن لڑنے والے اُمیدواروں اور اُن کے سپورٹرز کے جذبے یکایک سرد پڑگئے ہیں، تاہم ضلع خیبر کے حلقہ پی کے 105 میں امیدوار تاحال بڑے بڑے جلسوں کے انعقاد اور الیکشن دفاتر میں قیام و طعام کے انتظامات کروانے میں مصروف ہیں۔ خیال رہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات قبائلی اضلاع میں پہلی مرتبہ منعقد ہو رہے ہیں، جس کے لئے تاریخ 20 جولائی مقرر کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب قبائلی عوام کے مفاد کو اگر مدنظر رکھا جائے تو واضح ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات ان کے بہتر مفاد میں ہیں۔ خیال رہے کہ تمام قبائلی اضلاع میں امیدوار بڑے بڑے جلسوں کے بجائے ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ وہ اس بار الیکشن پر زیادہ اخراجات کرنے کے موڈ میں نہیں۔

جس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ ضلع کرم سمیت اکثر قبائلی اضلاع میں عام انتخابات کی نسبت اس مرتبہ امیدوار تعداد میں زیادہ کھڑے ہیں اور یہ کہ اکثر حلقوں میں سامنے آنے والے امیدوار کوئی خاص سیاسی یا عوامی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہذا کسی کو بھی جیت کا سو فیصد یقین نہیں۔ ہر اُمیدوار اپنے دیگر تمام مدمقابل امیدواروں سے خوف زدہ نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ شاید یہ ہو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سخت نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ کسی بھی صورت میں الیکشن قوانین اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ چنانچہ اب تک پارا چنار یا صدہ جیسے مرکزی شہروں سمیت تمام چھوٹے بڑے دیہات انتخابی مہم پر مشتمل تصاویر اور پوسٹرز سے خالی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ عام ووٹرز انتخابی مہم میں پہلے کی طرح دلچسپی نہیں لے رہے، بلکہ وہ امیدواروں سے ایڈوانس میں کچھ وصول کرنے کے موڈ میں ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جیتنے والا الیکشن کے بعد مڑ کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھے گا۔

اس ضمن میں گذشتہ انتخابات کے کچھ سرگرم سپورٹرز سے اس بار انتخابات میں سرد مہری اور عدم دلچسپی کا سبب جاننے کی غرض سے "اسلام ٹائمز" نے مختصر گفتگو کا اہتمام کیا تو اس دوران ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال عام انتخابات میں انہوں نے نہایت جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے امیدواروں کا ساتھ دیا، ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔ امیدواروں کے حکم پر اپنی جیب سے بڑے بڑے خرچے کیے، دن رات ایک کرکے سپورٹرز کی تعداد بڑھانے کی غرض سے چلائی جانیوالی انتخابی مہم اور دوروں میں اپنی اور کرائے کی دیگر گاڑیوں کا بے رحم استعمال کیا، خود تو کیا، اپنے گھر کے دیگر افراد، حتی کہ بچوں کا بھی وقت ضائع کیا۔ مگر الیکشن کے بعد انہیں نہ اپنا خرچہ ملا اور نہ ہی کسی نے ان کا حال پوچھا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گاؤں کیلئے تھوڑی سے سہولیات حاصل کرنے کی خاطر کیا، مگر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے باوجود ان کے گاؤں کیلئے ایک ٹرانسفارمر یا واٹر ٹینکی تک فراہم نہیں کی گئی۔

اس حوالے سے بعض امیدواروں کی رائے جاننے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی معاشرہ ہے، عوام کی اکثریت پیسے کی بجائے عزت کی طلب گار ہے۔ چنانچہ ہر ایک کے حجرے پر جانا ضروری ہے۔ اس لئے اس دفعہ وہ بڑے جلسوں کے بجائے ڈور ٹو ڈور مہم چلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ماہ رمضان کے بعد ہونے والے عام انتخابات کیلئے رمضان المبارک کے پورے مہینے میں امیدواروں کے دفاتر میں عام طور پر شام کو عوام کیلئے افطاری کا بندوبست کیا جاتا تھا، جبکہ اس مرتبہ تو اکثر امیدواروں نے ابھی تک الیکشن آفسز بھی نہیں کھولے ہیں۔ امیدواروں کی طرح عوام بھی اس بار گذشتہ کی طرح انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں فاٹا (قبائلی اضلاع) میں 30 فیصد کے لگ بھگ ٹرن آؤٹ رہا تھا، جبکہ اس مرتبہ چونکہ مہنگائی میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب لوگ الیکشن کے انعقاد کو سرے سے یقینی نہیں سمجھ رہے۔ چنانچہ ممکن ہے صوبائی الیکشن میں ٹرن آؤٹ اس سے بھی کم رہے۔

اسی اثناء میں بعض امیدوار نہایت حوصلے کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں، تاہم انہیں خود بھی یہ یقین حاصل نہیں کہ الیکشن کمیشن طے شدہ شیڈول کے مطابق الیکشن کروانے میں کامیاب ہوگا کہ نہیں۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ امیدوار ووٹ مانگنے تو آتے ہیں، لیکن کسی امیدوار نے عام لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے اور ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے کہیں ووٹرز کی تربیت نہیں کی، چنانچہ ٹرن آؤٹ کم ہی رہیگا۔ بہرحال الیکشن مہم میں تیزی لانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام تر امیدوار یکسوئی کے ساتھ پرامن طور پر جمہوری انداز میں جلسوں کا اہتمام کریں۔ اس مرتبہ انتخابات میں ایک خاص تبدیلی اور خوبی یہ نظر آرہی ہے کہ امیدوار تاحال ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کر رہے ہیں۔ چنانچہ امیدواروں کا تحمل پسندانہ رویہ دیکھ کر شاید عوام بھی انتخابات کے دوران میانہ روی کا راستہ ترک نہیں کریں گے۔ امیدواروں اور ووٹرز کو چاہیئے کہ انتخابی مہم تیز ہونے پر، سیاسی اور انتخابی جلسوں میں بھی وہ صرف اپنا منشور پیش کرنے اور عوام کی خدمت پر مبنی وعدوں تک خود کو محدود رکھیں۔ جس سے عوام کے سیاسی شعور میں پختگی پیدا ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 800005
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش