QR CodeQR Code

امام خمینی اور ایران کا اسلامی انقلاب(6)

(امام خمینی کی رحلت کے بعد)

18 Jun 2019 09:08

اسلام ٹائمز: آپکا یہ تقویٰ، پرہیزگاری، سادگی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ آپ لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ آپکی انہی خصوصیات کی وجہ سے عوام الناس آپکی کہی گئی باتوں اور فرامین پر توجہ کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر انقلاب سے عوام کی محبت و عقیدت یکطرفہ نہیں بلکہ آپ بھی اپنے عمل و کردار اور گفتار و رفتار سے عوام کے مفادات کا بڑھ چڑھ کر دفاع کرتے ہیں، محروموں اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں اور حکومتی اہلکاروں کو عوام کے حقوق و مطالبات نیز مشکلات کو حل کرنے پر مسلسل تاکید فرماتے ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
بانی انقلاب اسلامی کے بعد رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو جن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، زمان و مکان کے حوالے سے امام خمینی کو اس طرح کے چیلنجوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امام خمینی کے زمانے میں نیا نیا انقلاب کامیاب ہوا تھا، انقلابی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اس کے علاوہ جنگ کی وجہ سے ایرانی عوام کی پوری توجہ جنگ کی طرف تھی، لیکن امام خمینی کی پرکشش اور کرسمیٹک شخصیت کے بعد انقلاب اور اسلامی حکومت کے تمام اہداف اور امنگوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ملک کو ایسے عالم میں ترقی و پیشرفت کی طرف لے جانا جس میں انقلاب کی اے اور بی ٹیم شہید یا پہلے جیسی توانائیوں سے محروم ہوچکی ہو، آسان کام نہ تھا، لیکن رہبر معظم کے مخالف افراد بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی کے افکار و نظریات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

رہبر انقلابی اسلامی کی شخصیت پر اگر سرسری نگاہ بھی ڈالی جائے تو جو چیز نمایاں ہو کر سامنے اتی ہے، وہ ان کی عبودیت، توکل الی اللہ اور روحانیت و معنویت ہے۔ ایران کے آئین میں ولی فقیہ کے لیے سب سے بنیادی شرط تقویٰ ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان نے نئے رہبر اور ولی فقیہ کا انتخاب کیا تو انہوں نے اس شرط کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا۔ مجلس خبرگان کے تمام اراکین آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے زہد و تقویٰ اور فضائل اخلاقی کے دل سے قائل تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے دفتر کے انچارج حجت الاسلام محمدی گلپائیگانی کہتے ہیں کہ تہجد و شب زندہ داری رہبر انقلاب کی بنیادی خصوصیت ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای دعا و نیایش اور عبادت کا عجیب ذوق رکھتے ہیں۔ آیت اللہ صبح سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز سے پہلے دعا و نیایش میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ آپ اہلبیت علیم السلام، خصوصاً حضرت زہراء اور امام زمانہ علیہ السلام سے زیادہ متوسل ہوتے ہیں۔ آپ کا تقویٰ و پرہیزگاری واقعاً سب کے لیے مثال ہے۔ بلاشک و شبہ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں ان کے تقویٰ و پرہیزگاری اور آئمہ سے توسل بنیادی کردار کا حامل ہے۔

آپ خود فرماتے ہیں "ہم خدا کی مدد و نصرت کے بغیر کچھ انجام نہیں دے سکتے اور خدا کی مدد و نصرت توسل، عبادت، دل کی پاکیزگی اور نیت کو خالص کرنے کے علاوہ ممکن نہین، خدائی رحمت حقیر اور معمولی قسم کے ذاتی مقاصد کو نظرانداز کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ رہبر انقلاب کی ذاتی زندگی پارسائی، روحانیت سے مزین اور ہر طرح کی نمود ون مائش اور تعیشات و تجملات سے مکمل طور پر عاری ہے۔ آپ کی ذاتی زندگی اور رہن سہن عام ایرانی شہری سے بھی کم تر ہے، آپ غیر ضروری سہولیات اور مہنگی و بیش قیمت چیزوں کے استعمال سے سختی سے پرہیز کرتے ہیں۔ آپ بیت المال اور قومی و ملی وسائل کو اپنی ذات کے لیے جائز نہیں سمجھتے، آپ کی زندگی کی روش سادہ اور رہن سہن معمولی ہے، آپ سے ملنے والی ملکی و غیر ملکی اعلیٰ شخصیات بھی اس کی عینی شاہد ہیں۔ بہت سے غیر ملکی سربراہاں مملکت اور اعلیٰ عہدیدار آپ کی زندگی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ آپ سادہ، نمود و نمائش سے پاک اور غیر ضروری سہولیات سے عاری زندگی اس لیے گزارتے ہیں، تاکہ عوام جیسی زندگی گزار اور ان سے اظہار یکجہتی کر سکیں۔

آپ کا یہ تقویٰ، پرہیزگاری، سادگی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ آپ لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ آپ کی انہی خصوصیات کی وجہ سے عوام الناس آپ کی کہی گئی باتوں اور فرامین پر توجہ کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر انقلاب سے عوام کی محبت و عقیدت یکطرفہ نہیں بلکہ آپ بھی اپنے عمل و کردار اور گفتار و رفتار سے عوام کے مفادات کا بڑھ چڑھ کر دفاع کرتے ہیں، محروموں اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور حکومتی اہلکاروں کو عوام کے حقوق و مطالبات نیز مشکلات کو حل کرنے پر مسلسل تاکید فرماتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی سربراہ مملکت اس قدر عوام سے قریبی رابطے میں نہیں، جس قدر آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں۔ وہ جس تسلسل سے عوام کے مختلف طبقات سے خطابات یا ملاقاتیں کرتے ہیں، دنیا کا کوئی سربراہ اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ آپ کے عوامی خطابات کی تعداد کا کسی دوسرے سے موازنہ بھی شاید درست نہ ہو۔

آپ نہ صرف خطابات یا دوسرے طریقوں سے ان سے مخاطب ہوتے ہیں بلکہ عوام کے مطالبات اور اظہارات کو خود ان کی زبان سے سنتے ہیں اور ان کے مطالبات پر فوری توجہ دیتے ہیں۔ رہبر انقلاب کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پہچان ایرانی عوام اور ان کا عزم ہے۔ آپ عوام کے عزم و ارادے کو ہر رکاوٹ اور مشکل کے خاتمے کا بہترین وسیلہ و ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ عوام کی حمایت کے حوالے سے ایک بہترین مظہر و مصداق آپ کی طرف سے ان کے حقوق کا دفاع ہے اور ان حقوق میں ایک نمایاں حق ان کے انتخاب کا دفاع ہے۔ آپ ووٹ اور عوام کے حق رائے دہی کو حقوق الناس قرار دیتے ہیں، آپ اس بات کے قائل ہیں کہ انتخابات اور الیکشن کا احترام حقیقت میں عوام کی رائے کا احترام ہے۔ الیکشن کا احترام عوام کی تشخیص اور ان کے انتخاب کا احترام ہے۔ حکومت میں عوام کی رائے کی اہمیت اور احترام کا رہبر انقلاب اسلامی کئی بار اظہار کرچکے ہیں۔

اسلامی افکار و نطریات اور تعلیمات کی روشنی میں عوام کی رائے کسی بھی اسلامی حکومت کی قوت و توانائی کا باعث ہوتی ہے، جو عوام اور حکومت ایک صفحے پر ہوں تو اس حکومت کی بنیادوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ آج ایران کی اسلامی حکومت کی بنیادوں کی استواری میں عوام کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی ایرانی عوام، خاص طور پر نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ آپ معاشرے میں ان کے خصوصی اور اہم کردار کے قائل ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق ملک و ملت کے تمام افراد انقلاب کے حوالے سے ذمہ داری کے حامل ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن نوجوانوں کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے۔ نوجوان صف اول میں اور اس گاڑی کا انجن ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نوجوانوں میں موجود جوش و جذبہ اور قوت و توانائی کو ایک نعمت الہیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں، آج ایران اسلامی کو حاصل ہونے والی کامیابیوں، جس کا سلسلہ جاری ہے، میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 800107

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/800107/امام-خمینی-اور-ایران-کا-اسلامی-انقلاب-6

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org