2
0
Wednesday 19 Jun 2019 20:28

محمد مرسی کی سبق آموز زندگی

محمد مرسی کی سبق آموز زندگی
رپورٹ: ایس ایم عابدی

مصر کی جدید تاریخ کے پہلے غیر فوجی اور جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی 20 اگست 1951ء میں پیدا ہوئے اور قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی۔ محمد مرسی نے 1980ء میں یونیورسٹی آف ساؤدرن سے بھی تعلیم حاصل کی اور بعد میں کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی نارتھرج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پڑھاتے رہے۔ محمد مرسی 1985ء میں وطن واپس پہنچے اور تدریس کے ساتھ سیاسی سفر کا بھی آغاز کیا اور 2000ء سے 2005ء کے دوران اخوان المسلمین کے ممبر بھی رہے۔ 2005ء کے انتخابات میں شکست کے باوجود سابق صدر نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے سیاسی قیدی کے طور پر پانچ سال سے زیادہ عرصہ اسیری میں بھی گزارا۔ اخوان المسلمین کے اراکین پر حسنی مبارک کے دور میں پابندی تھی کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔

پھر مصر میں جب بیداری کی تحریک چلی، تو پانچ لاکھ جوان اور عوام " کلنا خالد سعید " کہہ کر قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں حسنی مبارک کے خلاف نکل آئے۔ سوشل میڈیا پر ایک عظیم موومنٹ شروع ہوگئی۔ اس وقت اخوان المسلمین کا رول صرف اور صرف مظاہرہ کرنے والوں کے  لئے کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنے والے کا تھا، یہ مکمل طور پر اس بیداری کی تحریک کے فیصلہ سازوں میں نہیں تھے، یہ سب ان کے لئے اچانک تھا جو ایک جوان کی موت اور اس کے بھائی کی طرف سے سوشل میڈیا پر پوسٹس سے شروع ہوا اور وائرل ہوگیا تھا، پھر جب حکومت گرنے کے بعد الیکشن ہوئے تو اخوان المسلمین ایکشن جیت گئی اور "محمد مرسی" مصر کے صدر منتخب ہوگئے۔ محمد مرسی نے تحریر اسکوائر پر لاکھوں کے مجمعے میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی رکنیت سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ صرف مصری عوام کے صدر ہیں۔ انہوں نے 20 جون 2012ء کو مصر کے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے پہلے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

محمد مرسی کی حکومت بننے کے بعد جمہوری اسلامی ایران نے اخوان المسلمین سے رابطہ کیا اور اپنا وفد قاہرہ بھیجا اور انہیں کہا کہ ہم آپ کی ہر طرح سے مدد کو تیار ہیں، آپ ہمارے تجربے اور ہمارے تعاون سے بلاشرط استفادہ کرسکتے ہیں اور تہران کے میئر باقر قالیباف کو بھی قاہرہ بھیجا، جس نے انہیں کہا کہ مصر کے پایہ تخت قاہرہ میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر اور مشکلات کو حل کرنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں، ہمارا اس حوالے سے بہت تجربہ ہے، ہم نے تہران اور دوسرے شہروں سے گندگی اور کچرا اٹھانے، ری سائیکل کرنے وغیرہ کا بہترین سسٹم بنایا ہے، ہم خود یہ سارا کام آپ کے لئے کردیں گے۔ اخوان المسلمین نے یہ جواب دیا کہ آپ کا راستہ مشکلات سے بھرا پڑا ہے، اس کی قیمت بہت زیادہ چکانا پڑتی ہے، ہم آپ والے راستے پر نہیں چلیں گے، ہم اعتدال کا راستہ اپنائیں گے، ہم امریکا یورپ سے نہیں بگاڑیں گے، ہمارے لئے ترکی ماڈل بہتر ہے اور قاہرہ کی گندگی اور کچرا اٹھانے کے لئے اور اسے گندگی کے ڈھیروں سے پاک صاف کرنے اور گندگی اور کچرے کو مناسب جگہ پر دفن کرنے کے لئے سعودی عرب کے اپنے بھائیوں (آل سعود) سے مدد لیں گے۔

ایرانی وفد نے انہیں امریکا یورپ اور آل سعود پر اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا، جنہیں نہ صرف ٹھکرا دیا گیا، بلکہ اس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد جو مصر کے سرکاری دورے پر تھے ان کی توہین کی گئی، جب وہ قاہرہ میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے مزار پر زیارت کے لئے گئے تو وہاں انکے خلاف نعرے لگوائے گئے اور جوتا بھی مارنے کی کوشش کی گئی۔ جون 2013ء میں اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر تحریر اسکوائر اور مصر کے دیگر شہروں میں مرسی حکومت کیخلاف مظاہرے شروع ہوگئے، جس میں صدر مرسی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ مصری فوج نے یکم جولائی 2013ء کو مرسی کو پیغام بھجوایا کہ 48 گھنٹوں میں عوامی مطالبات پورے کریں بصورت دیگر اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا، جسے مصری جمہوری حکومت نے نظر انداز کردیا۔ اس وقت کے فوجی سربراہ اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے امریکا اور سعودی عرب کی حمایت سے تین جولائی کو محمد مرسی کو معزول کرکے جیل میں ڈال دیا۔

یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب نے امریکا اور اسرائیل کی ہم آہنگی کے ساتھ قاہرہ کی اخوانی حکومت کو ختم کرادیا اور بالآخر اس کا آخری مرحلہ بھی طے ہوا جو مرسی کے جنازے کی صورت میں مصر کے قبرستان میں خاموشی اور پراسراریت کے ساتھ دفن کردیا گیا، یوں یہ انتہائی اہم مشن اپنے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پایا۔ اب اخوانی کہتے ہیں کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی، اب یہ غائبانہ جنازے کی نمازیں پڑھ رہے ہیں، لیکن یہ پھر بھی یہ کبھی مردہ باد آل سعود کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ انقلاب اسلامی ایران کے تجربے سے فرار اور آل سعود وغیرہ پر اعتماد، امریکا، یورپ اور اسرائیل کے ساتھ اچھے روابط بناکر اپنے آپ کو معتدل ظاہر کرنا بھی امریکا اور سعودیہ کو راضی نہ کرسکا اور پھر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا، سب نے دیکھا کہ اس بیماری نے آخر اخوانی حکومت کے چراغ کا کام تمام کردیا۔ تیونس کے "راشد الغنوشی" کا بھی ایران کو یہی جواب تھا وہ بھی صرف ایک فرق کے ساتھ کہ ہم قطر سے مدد لیں گے، آپ کا بہت بہت شکریہ اور پھر اس کا بھی "ٹینٹوا" دبا دیا گیا۔

یاد رہے کہ مرسی اور 132 دوسرے افراد پر 2011ء میں جیل توڑنے، ملکی دفاعی راز افشا کرنے، غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعاون اور ان کے ذریعے مصر میں دہشت گردی پھیلانے کے الزام میں مقدمات بنائے گئے تھے۔ اپریل 2014ء میں عدالت نے مرسی کو 2012ء میں صدارتی محل کے باہر اشتعال انگیزی پھیلانے اور فسادات کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مصر کی ایک عدالت نے مئی 2015ء میں مرسی کو جیل توڑنے کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔ سابق صدر پر الزام تھا کہ انہوں نے ودی نترون نامی جیل میں اسیری کے دوران غیر ملکی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر قیدیوں کو رہا کرانے کی سازش تیار کی اور 2011ء میں جیل توڑ کر فرار ہوئے۔ عدالت نے انہیں جاسوسی کے الزامات کے تحت عمر قید کی اضافی سزا بھی سنائی تھی۔ مرسی پر قطر کو قومی راز دینے کے الزام میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور دیگر جرائم میں 15 سال کی اضافی قید کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ تین سال قبل 15 نومبر 2016ء کو مصر کی اعلیٰ ترین عدالت نے مرسی کو سنائی جانے والی موت کی سزا کو ختم کردیاتھا لیکن ان کے خلاف دیگر مقدمات آخری دم تک زیر التوا رہے۔ محمد مرسی دو روز قبل عدالت میں ایک پیشی کے موقع پر اچانک گر کر بے ہوش گئے اور بعد ازاں مصر کے سرکاری ٹی وی نے خبر دی کہ ملک کے سابق صدر انتقال کرگئے۔
خبر کا کوڈ : 800179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

China
یہ اخوانی ہمیشہ ہی موقع پرست ثابت ہوئے ہیں، جو حکومت میں آتے ہی امریکا کے یار بن جاتے ہیں۔
China
محمد مرسی کی کہانی واقعی سبق آموز ہے، یہ اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔
ہماری پیشکش