0
Tuesday 18 Jun 2019 16:00

محسن اصغری کی گرفتاری اور سندھ پولیس کی نااہلی

محسن اصغری کی گرفتاری اور سندھ پولیس کی نااہلی
تحریر: سعید علی پٹھان

اس ملک میں پولیس سدھرنے والی نہیں، جب کوئی بچہ سیکنڈ لیفٹیننٹ یا سی ایس ایس کرکے اے ایس پی بنتا ہے تو اس کی قسمت کی لاٹری نکلتی ہے اور اس کو فخر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی سولین یا فوجی بیروکریسی کا حصہ ہے، پھر وہ آگے چل کر فوج یا پولیس میں بڑا افسر بن جاتا ہے۔ اس انسان کے دل میں مظلوم اور غریب کی حمایت کم مگر اپنی ذات کی ترقی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ پاکستان اور بالخصوص سندھ کی پولیس کے افسران رشوت کے مال سے جلدی امیر بن جاتے ہیں۔ اکا دکا کوئی اے ڈی خواجہ جیسا افسر خود کو کرپشن سے بچا لیتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے وہ افراد دکھائیں جنہوں نے آمدن سے زیادہ اثاثے نہیں بنائے۔ امام علی (ع) کی سیاست لوٹو نہیں لٹائو تھی مگر یہاں کی سیاست کرپشن، کمیشن، بے کرداری اور بدعنوانیوں پر گھومتی ہے۔

پولیس نے ہمیشہ ظلم و بربریت کا راج قائم کرکے رکھا ہے۔ اس طرح کے ظلم تو عام ہیں۔ پولیس کا ظلم و بربریت کس کو سنائیں؟ ایک ظلم 12 جون کو قاسم آباد حیدرآباد میں ہوا، جہاں بچوں کو قرآنی تعلیم دینے کیلئے کرایہ پر لئے ہوئے گھر، جو ماسٹر منظور مرحوم کا تھا، میں قائم کئے گئے اقراء قرآن سینٹر میں موجود سندھ یونیورسٹی کے طالب علم محسن علی اصغری کی گرفتاری سے ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے گھر پارک کی زمین پر قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں، ہم کہتے ہی ان گھروں کو مسمار کیا جائے۔


مفکر اسلام سید حسین موسوی نے اپنے الفاظ میں صورتحال کو اس طرح سمیٹا ہے کہ اصغریہ کی طرف سے قاسم آباد فیز۔2 کے علاقہ میں ایک کرایہ کے مکان میں اقرإء قرآن سینٹر قاٸم کیا گیا ہے۔ اینٹی اینکروچمینٹ مہم کے تحت پولیس اس علاقہ میں آٸی تو کچھ مالکان مکان نے ان کو مارا پیٹا، جو کہ جرم تھا۔ اقرإء قرآن سینٹر والوں کا اس واقعہ سے کوٸی تعلق نہیں تھا۔ دو دن بعد پولیس نے وہاں رات کو چڑھاٸی کی اور گرفتاریاں کیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقراء قرآن سینٹر پر موجود اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگناٸیزیشن کے مرکزی صدر کو بھی گرفتار کرکے لے گٸی، جبکہ مقامی پولیس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ تنظیم کا ادارہ ہے۔ تنظیمی ساتھیوں نے حیدرآباد کے کمشنر سے لیکر ایس ایچ او تک سب سے ملاقاتیں کی ہیں، سب نے مانا کہ یہ بے گناہ ہیں۔ لیکن 6 دن ہوگٸے ہیں، انہیں آزاد نہیں کر رہے۔ "ملک کفر سے قاٸم رہتا ہے
لیکن ظلم سے نہیں۔"

شکیل حسینی نے کیا خوب لکھا ہے کہ خود پولیس کے افسران اور ذمہ داران اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کا کوئی گناہ نہیں، مگر شہنشاہیت، بادشاہت اور نام نہاد جمہوریت کے نظام میں ولایت حق کا قانون نہیں ملتا، اس لئے بیگناہ اسیر کو حتی الامکان ولایت کے برعکس نام نہاد جمہوریت، بادہشاہت اور شہنشاہیت کے اندھے اور سست قانون سے دوچار ہونا پڑھے گا۔ آپ ایک ایسی جماعت کے میرکارواں ہیں، جس نے سندھ میں تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کے مطابق لاکھوں افراد کی تربیت کی ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی فرسودہ روایتوں کو ختم کرکے معاشرے میں اصلاحی روایات قائم کروائی ہیں۔ اب اس نظام کو بدلنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ سید شکیل حسینی کے جملے ہیں کہ
Injustice any where is a direct threat to justice everywhere. Blind and brutal act of Hyd police is strongly condemnable.
Its beyond to understand why such officers doesnot bother about thier careless acts which virtually ruin once career and left long lasting psychological disorders.

مگر ایک معصوم بے گناہ 20 برس کے جوان، جو جامعہ سندھ کا طالب علم اور گھوٹکی کا رہائشی ہونے کیساتھ اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان کا مرکزی صدر بھی ہے، جن کی بلاوجہ گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں کالا قانون ہے، اس معصوم کی گرفتاری ظلم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس جس کو چاہے، اس پر کیس بنا سکتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ماسٹر منظور جو دو سال پہلے وفات پاگیے تھے، وہ بھی کیس میں مفرور ہیں، یہ تو ہے ہمارے ملک کی پولیس کی قابلیت۔ میں تو اس خیال کا ہوں کہ ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور ایس ایس پی پر اس ظلم پر کیس داخل ہونا چاہیئے کہ ایک مظلوم کو گرفتار کیا ہے، تاکہ مستقبل میں کسی اور معصوم سے اس طرح کا ظلم نہ ہو۔ پاکستان میں کب ہوگا انصاف کا راج۔
خبر کا کوڈ : 800200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش