0
Friday 21 Jun 2019 11:19

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات لازمی

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات لازمی
تحریر: جے اے رضوی

اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں جنوب ایشیائی ممالک میں اس وقت سب سے زیادہ امن کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ سری لنکا میں جو حملے ہوئے، ان سے آس پاس کے ممالک میں بھی خوف و ہراس کا موحول پھیل گیا۔ اگرچہ اس وقت پوری دنیا اس طرح کے حملوں سے خوفزدہ ہے لیکن جنوب ایشیائی ممالک کچھ زیادہ ہی ڈر محسوس کرنے لگے ہیں، کیوںکہ جیسا کہ بار بار کہا جا چکا ہے کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، اس لئے ان واقعات کو کسی خاص مذہب یا ملک سے جوڑنا کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ پُرامن ماحول سب سے مہم ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ حالیہ دنوں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی مختلف ایشیائی ملکوں کے دورے سے واپس آچکے ہیں اور انہوں نے سری لنکا کے بعد مالدیپ کا دورہ بھی کیا۔

مودی کا یہ دورہ اس لحاظ سے اہم اور غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے، کیوںکہ حال ہی میں سری لنکا میں زبردست خودکش حملے ہوئے، جن میں کئی سو لوگ مارے گئے۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ میں ایک بدبخت نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے دو مساجد میں جمع ہونے والے نمازیوں پر گولیاں چلائیں، جس سے تقریباً پچاس نمازی شہید ہوئے۔ بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ ان دہشتگردانہ واقعات کے بعد وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کا مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنوب ایشیائی ملکوں میں قیامِ امن کی کوششوں کو تقویت دی جائے۔ چنانچہ ان کوششوں میں بھارت کس حد تک مخلص ہے یا کامیاب ہوسکتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ نریندر مودی کی ان کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ اس دوران حالیہ دنوں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت میں اپنے ہم منصبوں کو الگ الگ تہنیتی مکتوبات میں جہاں ان کو نئے عہدے سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے، وہیں ان کو بتایا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ظاہراً جو امن مشن شروع کیا ہے، اس کی ہر طرف نہ صرف سراہنا کی جا رہی ہے بلکہ یہ وقت کی آواز ہے اور جو وقت کی آواز کو نظرانداز کرتا ہے، تباہی، بربادی، بھوک اور افلاس اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس لئے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کو چاہیئے کہ برصغیر کے کروڑوں لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر مخاصمت کا راستہ ترک کرکے مفاہمت کی راہ اپنائیں، تاکہ جنوب ایشیائی خطہ امن، سلامتی، صلح و صفائی کا گہوارہ بن کر پوری دنیا کے لئے ایک مثال بن کر رہ جائے۔ اس وقت ہم سب کو پُرامن ماحول کی سخت ضرورت ہے اور امن اسی صورت میں ممکن ہے، جب بات چیت و مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اور تشدد و جنگ و جدل سے دوری اختیار کی جائے۔

ادھر آج یہ اطلاع بھی موصول ہو رہی ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے تہنیتی خطوط کے جواب میں خطوط ارسال کئے ہیں، خطوط میں کہا گیا ہے کہ بھارت امن اور ترقی کے لئے پاکستان سمیت تمام ممالک سے جامع مذاکرات کے لئے تیار ہے، تاہم اس کے لئے دہشتگردی، تشدد اور اشتعال انگیزی سے پاک بھروسہ کا ماحول قائم کرنا لازمی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی اور جے شنکر کو الگ الگ خط لکھے تھے۔ نریندر مودی اور جے شنکر کی جانب سے ارسال کئے گئے جوابی خطوط میں کہا گیا ہے ’’بھارت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کا خواہاں ہے، بھارت نے ہمیشہ عوام کی ترقی اور امن کو ترجیح دی ہے، امن اور ترقی کے لئے بھارت پاکستان سمیت تمام ممالک سے جامع مذاکرات کے لئے تیار ہے، مذاکرات میں دہشتگردی کے معاملے پر خصوصی توجہ ہونی چاہیئے۔‘‘

نریندر مودی نے جوابی مکتوب میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ باہمی امداد اور پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے، تاہم اس کے لئے دہشتگردی، تشدد اور عناد سے پاک ماحول لازمی ہے۔ ادھر بھارت نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے کہ جن میں کہا جا رہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے پیغامات کے جواب میں مذاکرات کی پیشکش کو بنا شرائط کے قبول کر لیا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارت کو پہل کرنی چاہیئے، کیونکہ بھارت ایک بڑا ملک اور اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک قرار دیتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بھارت کو یہ جمہوری اصول مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر پر بھی لاگو کرنا چاہیئے۔ بھارت کو اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر یہ تسلیم کر لینا چاہیئے کہ یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ بھارت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ طاقت کے زور پر کسی بھی قوم کو ہمیشہ کے لئے تسلط میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

کشمیر کہ یہ تیسری نسل ہے، جو زیادہ شدت سے جدوجہد آزادی میں قربانیاں پیش کر رہی ہے۔ اس مسئلہ کو زیادہ دیر التوا میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کو اپنی عوام میں جذباتی فضا کم کرنی چاہیئے، تاکہ مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی صورت میں اندرونی خلفشار اور دباؤ نہ ہو۔ اسی جذباتی فضا کو پاکستان میں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حالات بہت بدل چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا و ضد اور ہٹ دھرمی کے موحول سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنے ہونگے، اس کا فائدہ بھارت و پاکستان کی عوام کو بھی پہنچے گا، جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 800581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش