0
Saturday 22 Jun 2019 20:58

چیف جسٹس آف پاکستان ملکی صورتحال پر ڈپریشن اور مایوسی کا شکار

چیف جسٹس آف پاکستان ملکی صورتحال پر ڈپریشن اور مایوسی کا شکار
رپورٹ: ایس علی حیدر

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کی صورتحال سے مایوس ہیں، وہ ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے پریشان ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر ہُلڑ بازی، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے سے روکنے، کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی اور وکلاء کی اداروں کے خلاف نعرہ بازی، حتٰی کہ وہ ملکی صورتحال پر ڈپریشن، مایوسی اور پریشانی سے دوچار ہیں۔ اسلام آباد مین ماڈل کورٹ کے حوالے سے ہونے والی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دل میں جو کچھ تھا اس کا کھل کر اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھتے ہیں تو قائد ایوان وزیراعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کو بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، جب وہ تقریر کرنے کیلئے اٹھتے ہیں تو شور شرابہ ہو جاتا ہے، جب وہ معیشت سے متعلق بری خبریں سنتے ہیں تو مایوسی ہو جاتی ہے، جب کرکٹ دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی دیکھنے کو ملتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہیں سے اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں اگر اچھی خبریں ملتی ہیں تو وہ عدلیہ سے آرہی ہیں، مقدمات جلد نمٹنے سے عوام کو انصاف مل رہا ہے، بہت سے مقدمات کے جلد نہ نمٹانے سے لوگ جیلوں کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ ماڈل کورٹ نے 45 دنوں میں 5800 مقدمات نمٹا دیئے، جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں ماڈل کریمنل کورٹ سے متعلق تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے 100 فیصد اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح پاکستان کے عام شہریوں کو ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت، سیاسی صورتحال اور افراتفری پر تشویش ہے اس سے زیادہ چیف جسٹس کو پریشانی ہے، ہر محب وطن شہری کو موجودہ صورتحال پر پریشانی کا سامنا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں بصد احترام چند گزارشات گوش گزار کرنے کی جرات کی جارہی ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی بھی دوسری قومی اداروں کی طرح قابل رشک نہیں رہی ہے، مقدمات کے جلد نہ نمٹانے کی وجہ سے لوگ جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں، مقدمات نمٹانے میں تاخیر کے باعث دیوانی مقدمات میں لوگ دیوانے اور دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔

ملک میں جلد اور سستا انصاف ملنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ماضی قریب میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے باعث حکومتیں مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں۔ ماضی میں عدلیہ اپنا کام چھوڑ کر حکومتی امور میں مداخلت کرتی رہی بلکہ اس نے بعض انتظامی اختیار بھی سنبھال رکھے تھے۔ ڈیموں سے چیف جسٹس آف پاکستان کا کیا لینا دینا تھا؟ ان کا ہسپتالوں پر چھاپے مارنے سے کیا تعلق تھا؟ مگر بدقسمتی سے جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار مداخلت کرتے رہے، عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں، تاریخوں پر تاریخیں دی جارہی ہیں، انصاف ملنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جن مایوسیوں کا ذکر کیا ہے ان کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں عدلیہ جمہوری حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کرتی رہی لیکن آج تک عدلیہ نے فوجی آمروں اور مقتدر قوتوں کو سیاسی معاملات میں مداخل کرنے اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے اور توڑنے سے نہیں روکا۔

عدلیہ نے کبھی بھی مقتدر قوتوں کو انتخابات میں مخصوص جماعتوں کو اقتدار میں لانے سے روکنے کی زحمت گوارا نہیں کی، عدلیہ نے قومی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کا پابند نہیں بنایا۔ بدقسمتی سے فوجی آمروں اور مقتدر قوتوں نے ہمیشہ عدلیہ کا کندھا استعال کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کی بات ہو تو عدلیہ نے خود اسے جوڈیشل مرڈر یعنی عدالتی قتل قرار دیا ہے۔ جہاں تک سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے لینے کا تعلق ہے اس میں بھی عدلیہ کا بڑا کردار رہا ہے۔ پانامہ لیکس میں کچھ نہ ملا تو اقامہ پر نااہل کیا۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا جہاں تعلق ہے تو اس میں عدلیہ استعمال ہوئی ہے۔ ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا ہے، جہاں فوجی آمروں کے اقدامات کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کا تعلق ہے تو اس کیلئے عدلیہ کا کندھا استعمال ہوا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اداروں کو کمزور کرنے کیلئے مقتدر قوتوں کا اہم کردار رہا ہے، جب ادارے مضبوط نہ ہوں تو ملک ترقی نہیں کرسکتا، جب ادارے کمزور ہوں تو ملک کی دیواریں حل جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو استحکام دینے کیلئے تمام قومی اداروں کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا تو تب ملک ترقی کرسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 800979
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش