QR CodeQR Code

منامہ اقتصادی کانفرنس یا فلسطین کی نیلامی؟

25 Jun 2019 07:55

منامہ اجلاس میں اقتصادی حوالے سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم اس اجلاس کی سیاسی ناکامیاں اجلاس سے پہلے ہی قابل مشاہدہ ہیں۔ کانفرنس میں شریک عرب ممالک اور میزبان ملک کے خلاف عرب دنیا میں جو نفرت دیکھنے میں آرہی ہے، اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف سنچری ڈیل فلسطینی کاز سے جڑے افراد کیلئے ایک گالی میں تبدیل ہوچکی ہے اور فلسطینی اسکو اپنے لیے ننگ و عار قرار دے رہے ہیں۔


اداریہ
آج منامہ میں سنچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے اور اس کے اقتصادی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس ہو رہا ہے، جس کی فلسطینیوں کی طرف سے سخت مخالفت کا اعلان کیا گیا ہے۔ فلسطین کے مسئلے سے جڑی کسی فلسطینی تنظیم یا شخصیت نے ابھی تک اس سنچری ڈیل اور منامہ کانفرنس کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ اہل فلسطین اور فلسطینی کاز کے حامی تمام حلقوں کا اس پر اجماع ہے کہ سنچری ڈیل اور اس سے متعلقہ تمام سرگرمیاں فلسطینی حقوق کی پامالی پر منتج ہوں گی۔ سنچری ڈیل اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے خطے میں دونوں طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ امریکہ چھڑی اور گاجر کی سیاست یعنی لالچ اور دھونس دھمکی دونوں طرح کی پالیسی کو بروئے کار لا رہا ہے۔ خلیج فارس میں امریکی جنگی مشینری کی وسیع موجودگی کا مقصد صرف ایران کو خوفزدہ کرنا نہیں ہے بلکہ موجودہ جنگی ماحول سے فائدہ اٹھا کر خطے کے عرب ممالک کو اتنا خوفزدہ کرنا کہ وہ بغیر چوں و چرا کیے نہ صرف سنچری ڈیل پر اپنی رضامندی کا اعلان کر دیں بلکہ اس پراٹھنے والے اخراجات کو بھی قبول کر لیں۔

منامہ کا آج کا اجلاس بنیادی طور پر بعض عرب حکمرانوں کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل کو یقین دلانے کے لیے انجام پا رہا ہے کہ ہم دامے درمے سخنے آپ کے ساتھ ہیں، آپ ہماری بادشاہتوں کے ضامن بنے رہیں۔ اس کانفرنس میں شریک ممالک اور اجلاس کے میزبان کے بارے میں اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو ان ممالک کی حکومتیں پکے ہوئے پھل کی طرح کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور میزبان ملک بحرین اس ڈیل کے اصل اقتصادی پارٹنر ہیں۔ ان تینوں ممالک میں اردن کے شاہ نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے داماد (جو اس سنچری ڈیل منصوبے کا ٹھیکے دار ہے) کوشنز کے دورے اردن میں سنچری ڈیل کے خلاف موقف لیتے ہوئے اسے اردن کی مشکلات میں اضافے اور اردن کی ارضی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ کانفرنس میں شریک ایک اور ملک مراکش کے عوام بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اب رہ گئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین۔ بحرین اس کانفرنس کا میزبان ضرور ہے لیکن بحرین کے آل خلیفہ کی استبدادی حکومت سعودی اور امریکی سہارے پر قائم ہے، جس دن سعودی فورسز کی بحرین سے واپسی اور امریکی حمایت ختم ہوگئی، آل خلیفہ کا اقتدار زمین بوس ہو جائے گا اور آل خلیفہ خاندان بھی شاہ ایران کی طرح دنیا بھر میں پناہ کے لیے سرگردان ہو جائے گا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، بالخصوص سعودی عرب سخت داخلی دبائو کا شکار ہے۔ سعودی عرب کے اندر جو عوامی مخالفت کا لاوہ پک چکا ہے، وہ کسی بھی وقت آل سعود کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے یمن میں فوجی مداخلت کرکے اپنے آپ کو ایسی خطرناک دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت یمن کے مجاہدین کے ہاتھوں ایسا نقصان اٹھا سکتا ہے کہ دوبئی و ابوظہبی کے جگمگاتے تجارتی مراکز تاریکیوں میں ڈوب سکتے ہیں۔ منامہ اجلاس میں اقتصادی حوالے سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم اس اجلاس کی سیاسی ناکامیاں اجلاس سے پہلے ہی قابل مشاہدہ ہیں۔ کانفرنس میں شریک عرب ممالک اور میزبان ملک کے خلاف عرب دنیا میں جو نفرت دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف سنچری ڈیل فلسطینی کاز سے جڑے افراد کے لیے ایک گالی میں تبدیل ہوچکی ہے اور فلسطینی اس کو اپنے لیے ننگ و عار قرار دے رہے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 801352

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/801352/منامہ-اقتصادی-کانفرنس-یا-فلسطین-کی-نیلامی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org