QR CodeQR Code

گلگت بلتستان کے عوام کی قومی پہچان کا نوحہ

25 Jun 2019 10:28

اسلام ٹائمز: محترم قارئین پاکستان کے چار صوبے، چاروں صوبوں کے نظام اور عوام کو آئین پاکستان کا تحفظ حاصل ہے، لیکن جب گلگت بلتستان والے یہی مطالبہ کرتے ہیں، یہاں عوام کے سامنے مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے موجود اقوام متحدہ کی قرادادیں رکھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، لہذا ایسا ممکن نہیں۔ مگر گلگت بلتستان کے شہری متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر بھی حقوق سے محروم ہیں۔


تحریر: شیر علی انجم

مسئلہ کشمیر سے منسلک ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی اکائی گلگت بلتستان میں جہاں فکری، معاشی، اقتصادی، تعلیمی، انفراسٹکچر کی بدحالی اور خالصہ کے نام پر عوامی املاک پر سرکاری قبضہ ایک سنگین مسئلہ ہے، وہیں قومی شناخت کا سوال اس خطے کی نئی نسل کے ذہنوں میں طوفان بن کر اُبھر رہا ہے، جو کہ مسلسل نظر انداز کی صورت میں لاوا بن کر پھٹ بھی سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کیلئے گلگت بلتستان کا قومی سوال ایک طرح سے نان ایشو ہے، جسے ہر بار دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام جب بھی اس خطے کو مکمل طور پر قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا عذر پیش کیا جاتا ہے اور جب مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کریں تو اس مطالبے کو ایک طرح غداری جیسے سنگین الزامات کے زمرے میں ڈال کر عوام کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے زیر عتاب لوگوں کی اس وقت گلگت بلتستان میں ایک طویل فہرست موجود ہے۔

گلگت بلتستان کے 22 لاکھ عوام کی قانون شہریت کے حوالے سے جب یہاں کے قومی لیڈران اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے کشمیر کاز کے حوالے سے ریاستی بیانئے پر گہری نظر رکھنے والے اہل قلم اور اہل علم کہتے ہیں کہ قانونی طور پر گلگت بلتستان کے باشندے انقلاب گلگت کی ناکامی یا اُس انقلاب کو ناکام بنانے کی سازشوں کے بعد 16 نومبر 1947ء سے لیکر آج تک پاکستان کے زیر اتنظام متنازعہ خطہ ہے۔ لہذا جب تک رائے شماری نہیں ہوتی، شہریت کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں۔ البتہ گلگت بلتستان کے عوام ریاست جموں و کشمیر کے قانونی شہری ضرور ہیں، جسے ریاست پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور دفتر خارجہ کے ترجمان بھی کئی بار اس بات کا برملا اظہار کرچُکے ہیں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کا حصہ ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ بھی رائے شماری کے ذریعے ہی ہوگا۔ یہی بیانیہ پاکستان کے ایوانوں میں بیٹھے ماضی سے لیکر آج تک کے مختلف پارٹیوں کے اہم قائدین اور وزراء کا بھی ہے، جن کا گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے حوالے سے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہے۔

لیکن جب ہم گلگت بلتستان میں اندرونی طور پر دیکھتے ہیں تو صورت حال مختلف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پارٹی کا وزیر اسلام آباد میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ اور مسئلہ کشمیر کا اہم جزو ہے، لیکن وہی وزیر گلگت بلتستان پہنچ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے اور دینے جیسے اعلانات کرتا ہے اور ان اعلانات کو تقویت پہنچانے کیلئے مذہبی شخصیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں معاشرے میں جب کوئی حقوق کی بات کرے تو سیاسی مُلاوں کے تربیت یافتہ افراد ہمیشہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بنیاد پر قانونی شہریت کی دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن اُس شناختی کارڈ کی بنیاد پر ووٹ کا حق حاصل نہیں۔ ویسے تو گلگت بلتستان آرڈر 2018/19ء کے تحت خطے میں آئین پاکستان کے تحت سٹیزن ایکٹ 1951ء لاگو کر دیا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 17 جنوری کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر فیصلے میں گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، جس کے تحت کشمیر پر رائے شماری تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں۔ یوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم نامے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس قراداد کی بنیاد پر آزاد کشمیر کو اختیارات منتقل کئے گئے ہیں، اُسی طرز پر گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر سے قدرے بہتر نظام دیں، جس سے نہ ہی مسئلہ کشمیر پر منفی اثر پڑ سکتا تھا اور ساتھ ہی گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے قومی شناخت کے سوال کا بھی مسئلہ حل ہوتا جاتا، لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی حکمرانوں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے مخلصانہ کردار نظر نہیں آیا۔

اس وقت گلگت بلتستان میں قومی شناخت کا سوال زور پکڑ رہا ہے اور قومی شناخت دنیا کی کسی قوم کا بنیادی حق ہے، لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں قومی سوال کا جواب دلیل سے نہیں طاقت کے بل بوتے پر دیا جاتا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے عوام کی قانونی شہریت کے حوالے سے جہاں ریاست کنفوژ نظر آتی ہے، وہیں گلگت بلتستان کے عوام اس حوالے سے بہت زیادہ تذبذب کا شکار ہیں، جس کا اظہار گلگت بلتستان کے باشندے سوشل میڈیا پر صبح شام کرتے نظر آتے ہیں۔ قومی شناخت کی اولین شرط شناختی پہچان ہے جسے شناختی کارڈ کہتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم بنگلہ دیش کے مہاجر بنگالی اور افغان مہاجرین افغانی اور آزاد کشمیر کے شہری کشمیری پہچان کے ساتھ شناختی کارڈ رکھتے ہیں، لیکن گلگت بلتستان والوں کی شناختی کارڈ کی بنیاد پر قومی پہچان واضح نہیں، جس کا واضح ثبوت نیچے ملاحظہ فرمائیں۔

محترم قارئین پاکستان کے چار صوبے، چاروں صوبوں کے نظام اور عوام کو آئین پاکستان کا تحفظ حاصل ہے، لیکن جب گلگت بلتستان والے یہی مطالبہ کرتے ہیں، یہاں عوام کے سامنے مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے موجود اقوام متحدہ کی قرادادیں رکھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، لہذا ایسا ممکن نہیں۔ مگر گلگت بلتستان کے شہری متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر بھی حقوق سے محروم ہیں، جس کی واضح مثال گلگت بلتستان میں ریاست جموں و کشمیر کی دیگر اکائیوں سے ہٹ کر قانون باشندہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کی سنگین خلاف ورزیاں اور دوسری طرف دفتر خارجہ کی جانب سے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی موجودگی کا بارہا اعلان ہے۔

محترم قارئیں گلگت بلتستان کے عوام کی شہریت کے حوالے سے تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ نادرہ کا ڈیٹا بیس گلگت بلتستان کے شہریوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود ان کی پاکستانی شہریت کی نفی کرتا ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے شہریوں کو ریاست جموں کا شہری ظاہر کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ماتحت نادرہ میں جب گلگت بلتستان کا کوئی شہری شناختی کارڈ بنوانے کے لئے جاتا ہے تو اُس سے تمام تر معلومات حاصل کرنے کے بعد فارم کا پرنٹ نکال کر تصدیق اور دستخط کرنے کیلئے کہا جاتا ہے، اُس فارم کی شق نمبر29 کے مطابق گلگت بلتستان کا شہری آزاد جموں و کشمیر کا باشندہ نہیں کہلاتا جبکہ اُس سے نیچے ایک اور شق نمبر34 میں سوال ہے کہ کیا آپ نے پاکستانی شہریت حاصل کی ہے؟ جس کا جواب خودکار طریقے سے (نہیں) میں درج ہوتا ہے۔

یوں گلگت بلتستان کے شہریوں کو نہ ہی ریاست جموں و کشمیر کے شہری کی حیثیت سے کارڈ دیا ہوا ہے اور نہ ہی پاکستانی شہری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے قراداد 13 اگست 1948ء جس کے مطابق گلگت اور مظفر آباد کو الگ شناخت ظاہر کرکے لوکل اتھارٹی دینے کا مطالبہ ہے، اُس پر عمل درآمد وقت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ آج اکہتر سال بعد گلگت بلتستان کے شہریوں کی شہریت واضح نہ ہونا اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موجود UNCIP کی قرارداد پر عمل درآمد ہونا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں اس طرح کے اہم اور سنجیدہ معاملات کو نظر انداز کرنا نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ ریاست پاکستان کے بھی حق میں نہیں، جہاں آئینی حدود میں موجود بلوچستان اور پشتون پہلے ہی سر اُٹھا رہا ہے۔

لہذا ارباب اختیار کو چاہیئے کہ جس طرح وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کے قرارداد پر عمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح اُسی قرارداد میں گلگت بلتستان کے حوالے سے درج مندرجات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، کیونکہ جس قرارداد کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر نے حل ہونا ہے، اُسی قرارداد کے مطابق پہل پاکستان نے کرنا ہے اور اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے منشور کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے گلگت بلتستان کو قانونی شناخت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے لئے عبوری آئین جیسے مخملی نعرے اور مطالبات مکمل طور پر دم توڑ چُکے ہیں، لہذا اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قراداد پر عمل درآمد کا مطالبہ مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈر کا متفقہ مطالبہ ہے۔

کیونکہ آج گلگت بلتستان کا پڑھا لکھا نوجوان اس وقت بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے عالمی نشریاتی اداروں کے رابطے میں نظر آتا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کا اصل قومی ایشو کیا ہے، ہر گھر میں پہنچ چُکا ہے، لہذا گلگت بلتستان کی مبہم شناخت کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ریاست پاکستان کے ریاستی بیانئے کو سامنے رکھ کر گلگت بلتستان کے عوام کو قومی پہچان دیکر اس خطے کو دور جدید سے استوار کرنے کیلئے یہاں صنعتیں قائم کرنے، بیرروگازی کے طوفان کو بھی کنٹرول کرنے ضرورت ہے، جس کا فائدہ براہ راست مملکت پاکستان کو ہی ہوگا اور گلگت بلتستان کے عوام کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستان ترقی کرے۔


خبر کا کوڈ: 801480

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/801480/گلگت-بلتستان-کے-عوام-کی-قومی-پہچان-کا-نوحہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org