0
Wednesday 26 Jun 2019 18:30

امریکہ ایران سے چاہتا کیا ہے؟؟؟

امریکہ ایران سے چاہتا کیا ہے؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اپنے زعم میں دنیا کی ٹھیکدار اقوام اپنا بین الاقوامی آرڈر تشکیل دیتی ہیں اور پھر ان کی کھینچی لکیروں کی زد میں جو بھی آئے، اس کو کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دنیا میں طاقت کو ہی سب کچھ سمجھتی ہیں اور اسی کے زور پر کمزور قوموں پر حکومت کرتی ہیں۔ قبلائے خان نے سلجوق سلطنت کے سفیر سے کہا تھا کہ امن کمزور قوموں کی خواہش ہوتا ہے، ہم اس وقت تک امن کی بات کرتے ہیں، جب تک  مدمقابل قوم کا سر کچلنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ دنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شائد انسانیت نے ترقی کر لی ہے اور اب وہ طاقت کی بجائے اپنے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے دنیا کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ مگر یہ غلط فہمی ہے، نعرے بدلے ہیں، اصل نظام وہی ہے کہ حکمرانی طاقتور کا حق ہے، جو اس کے سامنے آئے گا، وہ کچلا جائے گا۔

پہلے طاقتور لوگ اپنے زعم میں دلیر ہوا کرتے تھے، اس لیے وہ یہ بات علی الاعلان تسلیم کرتے۔ اب دنیا میں منافق لوگوں کی حکومت ہے، آج کا حکمران طبقہ اپنے ملک کی عوام سے خوف کھاتا ہے، اس لیے بڑے دلکش نعروں میں دیگر اقوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اپنی عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ہم عظیم قوم ہیں، باقی ساری اقوام غیر تہذیب یافتہ ہیں، ان کا رہن سہن، رسم و رواج، بول چال، زبان، لباس یہاں تک کہ مذہب بھی آوٹ ڈیٹ قسم کی چیزیں ہیں۔ اس لیے رسم و رواج ہمارے چلیں گے، زبان ہماری بولی جائے گی، لباس ہمارا پہنا جائے گا، نام اگرچہ مقامی مذہب کا رہے مگر ہم اس کی روح ختم کرکے اس میں اپنے تصور مذہب کی روح ڈال دیں گے۔ وہ عقائد و عبادات جن کو وہ اپنے مذہب کے عقائد و عبادات سمجھ رہے ہوں گے، اپنے ظاہر میں تو انہی کے  ہوں گے، مگر ان سے روح کو ختم کر دیا گیا ہوگا۔

لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ امریکی صدر جنگ پسند ہے، ذہنی مسائل کا شکار ہے، تاجر ہے اور تجارت والی حکمت عملی اپنا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ جیسے علاقے میں ایک ایسا ملک موجود رہے، جو اپنی آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہو؟ جو اپنی مرضی کے فیصلے کرتا ہو؟ جہاں امریکی تہذیب کی حکمرانی نہ ہو؟ جہاں لباس، رہن سہن غرض مذہب اپنی روحانیت پر باقی ہو؟ یہ کسی طور پر سپر پاور کو قابل قبول نہیں ہے۔ سپر پاور کو چھوڑیں، جو خطے میں اس کے اتحادی ہیں، ان کو بھی قبول نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنی عوام سے خظرہ ہے، کیونکہ وہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری میراث کیوں برباد کی جا رہی ہے۔؟

ترقی اور آزادی کے نام پر ہمارے ہاں کیوں بے راہ روی کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے؟ مذہب کے نام پر مذہب کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ کھلواڑ کیوں ہو رہا ہے؟ عجیب بات ہے کہ کچھ اہل مذہب بھی ایسے بے توفیق ہوتے ہیں، جب مذہب کی بنیادی تعلیمات کی حفاظت کی باری آتی ہے، وہ اجتہاد کے نام پر دین کی بنیادی تعلیمات پر حملہ  آوروں کا ہراول دستہ بن جاتے ہیں۔ بی بی سی پر دیکھ رہا تھا کہ سعودی عرب میں حکومتی مولویوں کا ایک بڑا طبقہ ہے، جو شراب خانوں کے کھلنے، جوا کے اڈوں کے بننے اور ناچ گانے کنسرٹس کے جواز پر دلائل دے رہا ہے۔

امریکہ نے رہبر انقلاب اسلامی ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں، عجیب بات ہے یہ لوگ اپنے پیمانوں پر سوچتے ہیں کہ اگر امریکی صدر پر مالی پابندیاں لگ جائیں تو وہ کس قدر بے بس ہوگا۔؟ اسی طرح ایران کے رہبر اعلیٰ بھی بے بس ہو جائیں گے۔ تعجب ہوتا ہے، ان لوگوں نے شائد ہوم ورک نہیں کیا کہ وہ کوئی اربوں ڈالر کے مالک نہیں ہیں، جس سے ان کی جائیداد ضبط ہو جائے گی، ان کا تو مشہد میں پچاس سال پرانا گھر ہے۔ ایک عام ایرانی گھر میں جو نان پنیر کھاتا ہے، یہی ان کی خوراک ہے، اس لیے تمہاری یہ پابندیاں کاغذی کارروائی ہیں اور تم اہل ایران کی نظر میں مزید گِر گئے ہو۔ امریکہ نے جواد ظریف پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ایک انگریزی چینل پر ایک ڈیبیٹ سن رہا تھا، ایک اینکر پوچھتا ہے کہ کیا اب جواد ظریف کا ٹویٹر اکاوئنٹ بھی بند کروایا جائے گا؟ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ اسکالر نے کہا ہاں ایسا ہی ہے، امریکہ اس کی کوشش کرے گا۔

پوری دنیا میں آزادی اظہار کے نام پر ملکوں کو تاراج کرنے والے آزادی اظہار سے اس قدر خوفزدہ ہوں گے؟ سوچا نہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈرون گرائے جانے کے ساتھ ہی محترم جواد ظریف صاحب کی ٹویٹ نے امریکی عوام اور دنیا بھر کے آزادی پسند عوام کے سامنے امریکی مداخلت کو بے نقاب کر دیا تھا اور دنیا بھر کے میڈیا نے اسے کوریج دی تھی، ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کا موقف زیر سوال چلا گیا تھا، اس لیے جواد ظریف صاحب پر پابندی تو بنتی تھی۔ اس پابندی کے کئی نتائج ہیں، اس سے حکومت اور پاسداران مزید متحد ہو جائیں گے کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح امریکہ بے نقاب ہوگیا ہے کہ وہ مذاکرات کی بار بار جو بات کرتا ہے، وہ ایک ڈرامہ ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، اگر امریکہ مذاکرات میں سنجیدہ ہوتا تو کبھی بھی ایران کے سب سے بڑے سفارتکار پر پابندی نہیں لگاتا۔

اسرائیلی اور سعودی چاہتے ہیں کہ ہر صورت میں جنگ ہو، سعودی وفد تو برطانیہ کا دورہ بھی کرچکا ہے کہ ایران پر حملہ کیا جائے، مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ الفاظ کی یہ جنگ جاری رہے گی، یہ پابندیاں بھی تقریباً آغاز انقلاب سے جاری ہیں، ملت ایران نے پہلی بار نہیں دیکھی ہیں۔ مشکلات ضرور ہیں، مگر ایران ان سے نکل جائے گا، اصل میں یہ جنگ ہی نفسیات کی جنگ ہے، جو مضبوط اعصاب کا مالک ہے؟ وہ جنگ جیت جائے گا۔ ڈرون کا گرنا کچھ ملین ڈالر کا نقصان مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ امریکہ ڈرون کا ایران کے میزائل سے گرنا ہے اور دوسرا اہل یمن کے ہاتھوں ان کے جدید ترین میزائل حملے سے روکنے والے نظام کا ناکام ہونا ہے۔ اس سے امریکہ کی سب سے بڑی انڈسٹری یعنی اسلحہ انڈسٹری متاثر ہوگی، دنیا کا اعتبار امریکی ہتھیاروں سے اٹھ جائے گا، جس سے امریکی معیشت کا بہت زیادہ نقصان ہوگا۔

ایران مذاکرات کی امریکی گیم کو سمجھتا ہے، امریکہ کو مسئلہ ایٹمی ہتھیاروں سے نہیں ہے، وہ تو کئی ممالک کے پاس ہیں، امریکہ کو مسئلہ ایران میں ہر اس ادارے یا شخصیت سے ہے، جو ان کے بین الاقوامی ورلڈ آرڈر میں رکاوٹ ہے۔ وہ معاہدے کرتے رہیں گے، ان کو توڑتے رہیں گے، پھر مذاکرات کے لیے دباو ڈالتے رہیں گے، یہاں تک وہ انقلاب کے ہر ادارے کو ختم کر دیں۔ اس لیے امریکہ کو اسی جگہ روکنا ہوگا اور اسے پہلے معاہدے پر لانا ہوگا، جس کا وہ بین الاقوامی قانون کی رو سے پابند تھا اور اسے ہٹ دھرمی کی وجہ سے توڑا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 801690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش