0
Wednesday 26 Jun 2019 23:36
اے پی سی ناکامی سے دوچار

مولانا فضل الرحمان حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن کو قائل نہ کر پائے

حکومت گرانے کیلئے کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں اٹھایا جائیگا، پی پی پی
مولانا فضل الرحمان حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن کو قائل نہ کر پائے
رپورٹ: آئی اے خان

مولانا فضل الرحمان کی آل پارٹیز کانفرنس ناکام ہوگئی ہے، پیپلز پارٹی نے حکومت گرانے کی کوششوں کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو موجودہ حکومت گرانے پہ قائل نہیں کر پائے۔ اے پی سی سے پہلے ہی مسلم لیگ نواز کی جانب سے حکومت گرانے کے سوال پہ دو مختلف موقف سامنے آئے تھے جبکہ اے پی سی کے اجلاس کے دوران ہی پی پی پی نے حکومت مخالف تحریک میں جے یو آئی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپوزیشن کی آل پارٹیز میں جماعت اسلامی کے سوا تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں میں اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق نہیں ہوسکا، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پختونخوا میپ نے استعفوں کی حمایت کی، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ ہمیں اتنی جلدی حکومت کو مظلوم نہیں بننے دینا چاہیئے۔

اے پی سی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف موقف اپنائے جانے کے بعد قرار دیا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی حکومت گرانے کی غرض سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس ناکام ہوگئی ہے۔ اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت گرانے کیلئے اسلام آباد لاک ڈاون اور اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز پیش کی۔ پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کی تجاویز قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گرانے کیلئے کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں اٹھایا جائے گا جبکہ اس معاملے پر نون لیگ تقسیم نظر آئی اور کوئی واضح فیصلہ نہیں کرسکی۔ تاہم کانفرنس کے دوران تمام اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے پر اتفاق کیا۔

یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا بھی مستعفی ہو جائیں گے۔ حکومت کیخلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی، اس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہیئے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام میں پیشرفت نہیں ہوئی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر فیصلے کریں۔ انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی۔ اجلاس سے خطاب میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں اس سے بدترین بجٹ نہیں دیکھا، ہم اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ صادق سنجرانی کو تبدیل کیا جانا چاہیئے، اپوزیشن نے یہ اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کریگی۔ اے این پی نے حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کیلئے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی۔ میاں افتخار کا کہنا تھا کہ ہم تحریک سے متعلق پلان تیار کریںگے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہے، حکومت گرانے سے پہلے چیئرمین سینیٹ کو ہٹایا جائے، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کے ہونے چاہیئں۔ اجلاس کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اے پی سی میں ابھی مباحثہ ابتدائی سطح پر ہے، اجلاس میں مختلف رہنماؤں نے تقاریر میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، تاہم ایجنڈے کے اہم نکات پر بات چیت ہونا باقی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اے پی سی میں کیا فیصلے ہوئے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی بات چیت جاری ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے؟ تو مریم نواز نے ان شاء اللہ کہتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے کچھ نہ کیا تو عوام مایوس ہونگے، ہمیں حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان میں عوام کے نمائندہ حکمران موجود نہیں، نام نہاد حکمرانوں کا ٹولہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے بعد مسلط ہوا، ان انتخابات کو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسترد کرچکی ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کا ایجنڈا ملکی مفاد کے بجائے گھناؤنی سازش کا حصہ ہے، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ حکومت 11 ماہ میں کارکردگی کے اعتبار سے اپنی نااہلی پر مہر ثبت کرچکی ہے۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس سے قبل کہ ملک کسی سانحہ کا شکار ہو، ہمیں متفقہ بیانیہ پر متحد ہونا ہوگا۔

اے پی سی رہنماؤں نے ڈگمگاتی معیشت کو بچانے، ملکی سلامتی، سٹریٹجک اثاثے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو دشمن قوتوں سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذہبی معاملات کے حوالے سے اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگے۔ ذرائع کے مطابق اے پی سی کی اکثریتی جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر اتفاق کر لیا ہے، تاہم اس کے طریقہ کار پر مشاورت جاری ہے، اس کے علاوہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر بھی اکثریتی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے، تاہم بلاول بھٹو زرداری نے تحریک چلانے کی تاحال حمایت نہیں کی، دیگر جماعتوں کی بلاول کو قائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے پہلے مرحلے میں قرارداد پیش کی جائے گی۔ نئے چیئرمین کے نام کے لیے کمیٹی کے قیام پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔ کمیٹی میں تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ اے پی سی میں شامل جماعتوں نے 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کی تجویز مولانا فضل الرحمان نے دی تھی۔
خبر کا کوڈ : 801748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش