0
Thursday 27 Jun 2019 12:25

امن کانفرنس کے بعد افغان صدر کا دورہ پاکستان

امن کانفرنس کے بعد افغان صدر کا دورہ پاکستان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، جو کئی دہائیوں سے عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شکار اور شورش زدہ ہے، جس کے سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہو رہے ہیں، افغانستان میں امن پاکستان کیلئے فائدہ مند ہے، موجودہ سفارتی کوششیں اور مذاکرات میں پاکستان کا زبردست اسکا عکاس ہے۔ مری میں افغان حکومت کی اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس پاکستان کی بڑی کامیابی ہے، اس سے افغان حکومت، افغان طالبان اور اپوزیشن کے دھڑوں کو قریب لانے میں مدد ملے گی، جس سے دوحہ مذاکرات کو عملی تجاویز اور روڈ میپ بنانے میں آسانی ہوگی۔ پاکستان کی ان کوششوں میں روس اور چین معاون لیکن امریکہ اور انڈیا رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، اسی لیے امریکہ اور بھارت کی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت نے مری میں ہونیوالی افغان امن کانفرنس کو بے نتیجہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود افغان صدر کا دورہ اسلام آباد افغان امن عمل میں پیشرفت قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک طویل، کٹھن اور پیچیدہ پراسس ہے۔

پاک افغان تعلقات میں آنے والی حالیہ پیچیدگی کا جائزہ لیں تو پی ٹی ایم کی منفی سرگرمیاں اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ اسکی تازہ ترین مثال ہے، البتہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان، بلوچ عسکریت پسند اور انڈیا کی افغانستان میں بے جا موجودگی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اہم اسباب ہیں۔ افغانستان کا الزام ہے کہ افغان طالبان کی قیادت نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں میں رہ رہی ہے بلکہ اُن کے تربیتی مراکز بھی پاکستان میں ہیں اور آج بھی بیشتر افغان وہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا الزام ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں سرگرم بلوچ عسکریت پسند نہ صرف پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں بلکہ انڈیا کی مدد سے اُنھیں تربیت بھی دی جاتی ہے۔ دونوں ممالک میں دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد ایک دوسرے پر اُن کی سرزمین کے استعمال کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

پاکستان کا یہ بھی الزام ہے کہ گذشتہ سال پاکستان میں بننے والی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے پیچھے بھی افغان حکومت اور انڈیا کا ہاتھ ہے اور جب افغان صدر اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے حق میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیے تو پاکستان نے اس پر بھی شدید احتجاج کیا اور اس کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے وائس آف امریکہ کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ اور شکیل آفریدی جیسے کیسز کا سہارا لیکر پاکستان کیلئے پریشانیاں پیدا کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے افغان طالبان، افغان اپوزیشن رہنماؤں اور افغان حکومت سب کیساتھ اپنے تعلقات میں بہتری اور روابط میں اضافہ کیا ہے، جس سے کو بات بڑھانے اور مخالف قوتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو وہ افغانستان میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ پاکستان کیساتھ دوطرفہ معاملات میں اپنی بات منوانے کیلئے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دباو کے طور استعمال کر رہا ہے۔

اسی طرح بھارت کشمیر میں آزادی کی تحریک سے توجہ ہٹانے اور پاکستان کو اس پر مجبور کرنے کیلئے کہ وہ حریت پسندوں کی حمایت کی پالیسی تبدیل کرے، جیسے غیر حقیقت پسندانہ مقاصد کے حصول کیلئے بلوچ علیحدگی پسندوں اور کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم ٹی ٹی پی جیسے قاتل گروہوں کے ذریعے داعش کو پاکستان کیخلاف منظم کر رہا ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ پاکستان نے ان امریکی اور بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان کیخلاف تیار کیے جانے والے مذکورہ گروہوں کو کمزور بنایا ہے، لیکن امریکی اور بھارتی ریاستی پشت پناہی کی وجہ سے انکا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوا، یہ تب ممکن ہے جب افغان حکومت کو یہ باور کروایا جائے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب افغانستان میں ایسی حکومت موجود ہو جو سیاسی اور معاشی طور پر امریکہ کی دست نگر نہ ہو، کابل میں ایسے سیٹ اپ کا قیام ہی چین، روس، پاکستان اور ایران کا مشترکہ مقصد ہو سکتا ہے۔

حالیہ دورے کے دوران افغان صدر وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی سے ملاقات کر رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دوطرفہ شکایتوں اور شکووں کی بجائے باہمی دلچسپی کے اُمور سمیت سیاسی، تجارتی، اقتصادی، سکیورٹی اور دونوں ممالک کی عوام کے درمیان رابطے بڑھانے پر بات چیت ہو گی۔ افغان صدر کے دورے میں افغان مہاجرین، بارڈر مینیجمنٹ، افغان امن عمل اور دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر اپنے اپنے ریاست دشمن عناصر کو پناہ دینے کے الزامات پر بھی بات چیت ہو گی۔ ان کے مطابق افغان صدر کی ایک اور کوشش یہ بھی ہو گی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ صدر اشرف غنی چار سال بعد پاکستان آئے ہیں، وہ افغانستان کے صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد ہی نومبر 2014ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور بعد میں دسمبر 2015ء میں ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسیس کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی پاکستان آئے تھے۔

ان تمام تر مشکلات، الجھنوں اور رکاوٹوں کے باوجود پاک افغان رہنماؤں اور سربراہوں کی ملاقاتیں اور دونوں ممالک کے دورے اہمیت کے حامل ہیں، برف پگھلانے اور غلط فہمیاں دور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کئی بار کوشش کی گئی کہ افغان صدر پاکستان کے دورے پر آئیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث اُنھوں نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے اور اسی لیے افغان صدر نے یہ دعوت قبول کی ہے۔ اب جب اُنھوں نے رضا مندی کا اظہار کیا ہے اور پاکستان آ رہے ہیں تو میرے خیال میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق افغان صدر کے دورے سے پاکستان یہ دکھانا چاہے گا کہ وہ طالبان کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔ تاہم تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغان حکومت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں، اسی لیے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ جو پاکستان کیلئے بہتر ہے، افغانستان میں امن کا انحصار دو طرفہ تعلقات میں بہتری پر ہے، جس کے اثرات عالمی طاقتوں کی افغان پالیسی پر بھی مرتب ہونگے۔

 
خبر کا کوڈ : 801824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش