1
Friday 28 Jun 2019 21:27

منشیات کے بڑھتے رجحان پر توجہ کی ضرورت

منشیات کے بڑھتے رجحان پر توجہ کی ضرورت
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر بھر میں منشیات کا کاروبار جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اس پر یہاں کی عوام انتہائی فکرمند ہے۔ نوجوان نسل تیزی سے منشیات کی لت میں مبتلا ہو رہی ہے، چنانچہ اب عام لوگوں نے از خود اس وباء کے خلاف مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور پولیس کے ساتھ قریبی تال میل بنائے رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ منشیات کے خاتمہ کے لئے کشمیر بھر میں آج کل مختلف پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں، جن کے تحت تمام اضلاع میں ریلیاں، سیمینارز، مذاکروں اور مباحثوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان پروگرامز میں حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی انجمنیں اور کئی فلاحی و سماجی جماعتیں بھی پیش پیش ہیں۔ ان پروگرامز میں سماج کے اندر پنپنے والے منشیات کے خوفناک رجحان کے خطرات کا احاطہ کرنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ بے شک اس معاملے پر اظہار تشویش اور فکرمندی وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم انتظامی و سماجی سطح پر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں۔

صورتحال کا مجموعی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اپنی مختلف النوع مصروفیات کی وجہ سے اس رجحان کے بنیادی حقائق اور اس کو عام کرنے والے عناصر کے عزائم اور سرگرمیوں کی طرف ایسی توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں، جس کی یہ متقاضی ہیں، وگرنہ شاید ایسا نہیں ہوتا کہ آج ہماری ناک کے نیچے منشیات کی خرید و فروخت عام ہے اور اس کا استعمال کرنے والے ہمارے دست و بازو ہیں، لیکن دانستہ یا غیر دانستہ تغافل و تجاہل نے اس خوفناک بیماری کو ہمارے سماج کی بنیادوں میں بری طرح پیوست کر دیا ہے، جسے اگر ابھی بھی ختم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں نہیں بخشیں گی۔ ذاتی مصروفیات ٹھیک ہیں، لیکن منشیات کی وباء پر کنٹرول ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔

فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ بھارتی ریاست پنجاب کے بعد مقبوضہ کشمیر منشیات کے خرید و فروخت کی پسندیدہ جگہ بن چکا ہے۔ جہاں تک ہماری وادی کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ چند برس قبل تک کشمیری سماج اس خجالت و وباء سے مکمل طور پر ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمباکو کو چھوڑ کر دیگر انواع کے نشوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا تھا، تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔ چین کی عوام کو تو دہائیوں قبل اس لت سے نجات مل گئی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام اس دلدل میں پھنستے ہی جا رہے ہیں اور یہاں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار میں فروغ پایا جارہا ہے، بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق 16 سے 30 برس کے درمیانی عمر کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ آسانی سے مائل ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 3.8 فیصد آبادی افیم اور افیم سے وابستہ نشے کی عادی ہے، جو بہت بڑی تعداد ہے۔ 1980ء تک ہیروئن اور دوسری سخت نشہ آور چیزیں ممبئی سے کشمیر آیا کرتی تھیں، لیکن 1990ء کے بعد کشمیر ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیاء کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن رہا ہے۔ ایک مقامی رضاکار تنظیم کی ایک تحقیق کے مطابق کشمیر میں منشیات کی وباء طوفان کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور تشویشناک امر یہ ہے کہ چھوٹے بچے اور نوجوان حتی کہ ہماری خواتین بھی اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس ادارہ کی پائلٹ سٹیڈی میں کہا گیا ہے کہ یہاں 22 فیصد گریجوٹ، 6 فیصد پوسٹ گریجوٹ اور 2 فیصد پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہو رہا ہے۔؟ بھنگ، پاپی اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985ء کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کے لئے مجرم کو 10 سال قید بامشقت اور ایک لاکھ روپیے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت سنگین جرم ہے۔ بھارتی حکومت کے ذریعے پاس کئے گئے اس قانون کو کشمیر کی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں، اگرچہ اس قانون کی دفعہ 10 ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم، پاپی کے پودوں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگائے اور اسے ضبط کرسکتی ہے، تاہم عملی طور پر ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیا جائے تو حکومتی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں، جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے، جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے۔

اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں منشیات اور شراب نوشی کے پیچھے درپردہ قابض حکومت کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ قابض فورسز کے کیمپس میں کشمیری نوجوانوں کو شراب میسر کیا جا رہا ہے، کوئی پوشیدہ بات نہیں یا جو افراد بھارت کی مختلف ریاستوں سے کشمیر بظاہر بھیک مانگنے وارد ہوتے ہیں، بڑی حد تک اس کاروبار میں ملوث ہیں۔
کچھ روز قبل سرینگر میں زیارت شریف نقشبند صاحب کے قریب باتھ روم سے ایک نوجوان کی لاش برآمد ہوئی، جس کے بارے میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہ منشیات کی لت میں مبتلا تھا اور اسی وجہ سے وہ دم توڑ بیٹھا تھا۔

درایں اثنا مقبوضہ کشمیر کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ پر میرواعظ عمر فاروق نے بھی منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں منشیات کا استعمال ایک ناسور کی طرح ابھر رہا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نگاہ رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے اس وباء میں مبتلا نہ ہونے پائیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ انہیں مختلف وفود اور خطوط کے ذریعے شہریوں کی طرف سے اس بارے میں باخبر کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب اسکول اور کالج جانے والی لڑکیاں بھی منشیات کا استعمال کرنے لگی ہیں۔ انہوں نے سماج کے ہر طبقے سے اپیل کی کہ وہ اس حوالے سے حکومتی اقدامات کا انتظار نہ کرتے ہوئے از خود ان افراد کی نشاندہی کریں، جو اس ناپاک وباء کے کاروبار میں ملوث ہیں۔

غرض یہ کہ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتا ہے اور اگر یہی نوجوان نسل نشے کی لت میں مبتلا ہو جائے تو کس طرح قوم آگے بڑھ سکتی ہے۔ نوجوانوں کے کردار و عمل سے قوموں کی تقدیریں بنتی ہیں، لیکن جب یہی نوجوان چوبیس گھنٹے نشے کی لت میں مبتلا ہوکر لڑکھڑا جاتا ہو اور جسے نشے کی حالت میں ماں بہن اور بیوی میں تمیز کرنا مشکل بن جاتا ہو تو اس نوجوان سے کون سی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے کشمیر کے ہر باشندے کو اس بارے میں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے اور مل جل کر سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیئے
۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال سے کوئی ایک فرد متاثر نہیں ہوگا بلکہ یہ پورے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جاسکتا ہے، اس لئے کشمیری قوم کا فریضہ ہے کہ اس تشویشناک امر کی روک تھام کے لئے اقدام کرے۔
خبر کا کوڈ : 801905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش