1
Saturday 29 Jun 2019 14:15

محاذ یمن اور انقلاب مہدیؑ(1)

محاذ یمن اور انقلاب مہدیؑ(1)
تحریر: ثاقب اکبر
 
ایک طرف محاذ یمن پر اہل یمن کی آبرو مندانہ اور اعجاز آمیز پیش رفت جاری ہے اور دوسری طرف انقلاب مہدیؑ سے متعلق پیش گوئیوں اور بشارتوں کے تذکرے زبان زد عام ہیں۔ ایسے میں نبی کریمؐ اور ان کے اہل بیتؑ کی طرف سے پہنچنے والی ان خبروں کی جانب ذہن مائل ہو جاتا ہے، جن میں انقلاب مہدی ؑسے پہلے یا اس سے ملحق ہو جانے والے قیام یمانی، قیام خراسانی اور خروج سفیانی کا ذکر تواتر سے کیا گیا ہے اور انہیں امام مہدیؑ کے ظہور کی ناگزیر نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ زیادہ تر روایات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یمانی یمن بلکہ یمن کے مرکزی شہر صنعا سے قیام کریں گے، امام حسینؑ کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان کے پرچم سفید ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی سید خراسانی کے قیام کی خبریں بھی دی گئی ہیں اور اس زمانے میں سفیانی کے خروج کی روایات بھی نقل ہوئی ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں یمانی کو منصور بھی کہا گیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا نام نہیں ہوگا بلکہ خدا کی طرف سے ان کو حاصل ہونے والی نصرت کی وجہ سے انہیں منصور کہا جائے گا۔ جیسا کہ مہدی کو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہونے کی وجہ سے مہدی کہا گیا ہے اور یہ ان کا نام  نہیں ہے۔
 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ یمانی کے بارے میں احادیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں موجود ہیں۔ ایک محقق کے مطابق ان کی تعداد چھتیس تک پہنچتی ہے۔ بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ یمانی کے شہروں کے نام صنعا، عدن، کندہ اور ابین منقول ہوئے ہیں، لیکن صنعا کے بارے میں روایات مستفیض ہیں، جو ان کے مرکز کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق یمانی کا قیام برحق، اس کا علم ہدایت دینے والا اور دعوت صراط مستقیم کی طرف ہوگی۔ ان کے قیام سے منسلک ہونے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ احادیث کے مطابق جب یمانی قیام کرے گا، اس وقت اسلحہ بیچنا حرام ہوگا۔ ان روایات کو سامنے رکھ کر ہم چند باتوں کی نشاندہی کرتے ہیں، ایک یہ کہ اس وقت عالمی استعمار اور صہیونی قوتوں کے خلاف یمن میں جو گروہ نبردآزما ہیں، ان کی قیادت حوثیوں کے ہاتھ میں ہے، جو سادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا مرکز صنعا ہے اور اس وقت پوری دنیا نے انہیں اسلحہ بیچنا عملاً حرام قرار دے رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے اپنے حامیوں کے لیے بھی جائز نہ ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھ میں آیا ہوا اسلحہ بیچ کر اپنی تحریک کو کمزور کریں۔

ہم یہاں یہ نہیں کہنا چاہ رہے کہ انصار اللہ کے موجودہ قائد عبدالمالک حوثی ہی وہ سید یمانی ہیں، جن کی پیش گوئی روایات میں کی گئی ہے، البتہ چند حقائق کی ضرور ان پر تطبیق کی جاسکتی ہے، جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ روایات میں اس دور میں یمن سے ایک شخص قحطانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، بظاہر یمانی اور قحطانی دو کردار ہیں، جو ایک دوسرے کے حامی ہیں۔ یاد رہے کہ یمنی لوگ نسلاً قحطانی ہیں۔ نعیم ابن حماد کی کتاب الفتن میں ہے کہ یمانی مدینہ میں امام مہدیؑ سے ملحق ہوں گے۔ سفیانی اپنا لشکر مدینہ بھیجے گا، لیکن وہ دونوں مدینہ سے مکہ کی سمت نکلیں گے، سفیانی کا لشکر ان کے تعاقب میں مکہ کی جانب نکلے گا اور بیداء نامی جگہ پر زمین میں دھنس جائے گا۔
 
امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق یمانی حضرت علیؑ کا محب ہوگا۔ ایک عراقی عالم نے الیمانی رأیۃ الہدیٰ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، اس میں یمانی کا حسب و نسب اور قیام کے زمان و مکان کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے یمانی کے قیام کو ظہور کی حتمی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔ امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ امام مہدیؑ کا ظہور سفیانی کے خروج کے بغیر نہیں ہوگا۔ مختلف روایات میں سفیانی کے خروج کو بھی ظہور کی حتمی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سفیانی کو ابو سفیان کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے سفیانی کہا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے کردار کے پیش نظر اسے سفیانی کہا جائے۔
 
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قیام کی حتمی نشانیوں میں سے ایک سید خراسانی کا قیام بھی ہے۔ بہت سی روایات میں آیا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ پر علامت ہوگی، بعض روایات کی عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی خلل ہوگا۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ دایاں ہاتھ خالی ہوگا، یعنی کوئی چیز اٹھا نہیں سکے گا اور شل ہوگا۔ ان کا لشکر شعیب بن صالح کی سپاہ سالاری میں کوفہ کی طرف حرکت کرے گا اور دوسری طرف سفیانی کا لشکر کوفہ کی طرف آئے گا، جسے سید خراسانی کا لشکر شکست دے گا۔ خراسانی کے پرچم سیاہ ہوں گے۔ ان کا لشکر مختصر مدت میں خراسان سے کوفہ تک پہنچ جائے گا۔ گویا بڑا فاصلہ مختصر سے وقت میں طے کرے گا۔ ان سب پیشگوئیوں کے ساتھ ساتھ ان پیشگوئیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن میں قم سے ایک مرد کے قیام کی خبر دی گئی ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے گرد ایک ایسی قوم جمع ہو جائے گی کہ جس کے پائے استقال کو تیز ہوائیں متزلزل نہیں کرسکیں گی اور وہ فولاد کی طرح سے مضبوط ہوگی۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات شائع ہوچکی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں اشارہ ہی کافی ہے۔

جو امر ہمارے نزدیک سب سے حیران کن ہے وہ ’’روح اللہ‘‘ نام کے ایک شخص کے بارے میں پیش گوئی ہے۔ ان کا ذکر اہل سنت کے معتبر منابع میں بھی آیا ہے اور شیعوں کے ہاں بھی اس نام کے بارے میں ایک روایت نقل ہوئی ہے۔ دونوں منابع کی روایات میں بنیادی مفہوم مشترک ہے۔ اہل سنت کے ہاں اسے ابو دائود نے، نسائی نے سنن کبریٰ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیا ہے۔ ابی دائود کے الفاظ یوں ہیں: "عن ابی زرعۃ بن عمرو بن جریر ان عمر بن الخطاب قال: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ان من عباد اللہ لأناسأ ما ھم بأنبیاء ولا شھداء، یغبطھم  الأنبیاء والشھداء یوم القیامۃ بمکانھم من اللہ تعالی، قالوا یا رسول اللہ: تخبر نا من ھم، قال: ھم قوم تحابّوا بروح اللہ علی غیر ارحام بینھم، ولا اموال یتعاطونھا، فو اللہ  ان وجوھھم لنور وانھم  علی نور، لا یخافون اذا خاف الناس، ولا یحزنون اذا حزن الناس و قرا ھذہ الایۃ: اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ"(یونس:۶۲)
 
ترجمہ: ابو زرعہ بن عمرو بن جریر نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسانوں میں سے اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوں گے، جو نبی ہوں گے، نہ شہداء البتہ انبیاء اور شہداء قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے مقام کی وجہ سے رشک کرتے ہوں گے۔ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ! ان کے بارے میں ہمیں خبر دیں تو آپ نے فرمایا: وہ ایک ایسی قوم ہوگی، جو روح اللہ سے محبت کرتی ہوگی، لیکن رشتہ داری کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی مال و دولت کے حصول کی وجہ سے۔ اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہی نور ہوں گے اور وہ خود بھی نور پر سربلند ہوں گے، جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ حزن و ملال میں ہوں گے تو انہیں کوئی حزن نہ ہوگا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: آگاہ ہو جائو کے اولیاء اللہ وہ ہیں کہ جنھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔
 
البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ بعض شارحین نے ’’روح اللہ‘‘ کے طرح طرح کے معنی کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم حدیث کی عبارت پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک فرد ہے اور لوگ اس سے محبت رشتے داری کی وجہ سے نہیں کرتے اور نہ مال و دولت کے حصول کی وجہ سے۔ شیعوں کے ہاں یہ روایت علامہ مجلسی کی بحار الانوار میں ہے، جس کے مطابق امام محمد باقرؑ نے نقل کیا کہ پیغمبراکرمؐ نے فرمایا: "عن یمین اللہ۔۔۔ او عن یمین العرش۔ قوماً منا علی منابر من نور، وجوھھم من نور و ثیابھم من نور تغشی وجوھھم ابصار الناظرین دونھم قال ابو بکر: من ھم یا رسول اللہ؟ فسکت۔ فقال الزبیر من ھم یا رسول اللہ؟ فسکت۔ فقال عبدالرحمن: من ھم یا رسول اللہ؟ فسکت۔ فقال علی علیہ السلام: من ھم یا رسول اللہ؟ فقال: ھم قوم تحابّوا بروح اللہ علی غیر انساب و لا اموال اولئک شیعتک و انت امامھم یا علی۔" (بحارالانوار: علامہ مجلسی، ج۵، ص۱۳۹، ط: موسسہ الوفا، بیروت)
 
ترجمہ: اللہ کی یا (فرمایا) عرش کی دائیں جانب ہم میں سے ایک قوم ہوگی، جو نور کے منبروں پر جلوہ گر ہوگی، ان کے چہرے بھی نورانی ہوں گے، لباس بھی نورانی، ان کے چہروں کے نور کی تاب دیکھنے والوں کی آنکھیں نہ لا سکیں گی، جو ان کے علاوہ دوسرے ہوں گے۔ اس موقع پر حضرت ابو بکر نے پوچھا: یارسول اللہ! یہ کون ہوں گے؟ اس سوال پر آپ خاموش رہے، پھر زبیر نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کون ہوں گے؟ آپ پھر خاموش رہے، پھر عبدالرحمن نے پوچھا: یارسول اللہ! یہ کون ہوںگے؟ اس مرتبہ بھی آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ حضرت علیؑ نے پوچھا: یارسول اللہ! یہ کون ہوںگے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے، جو ’’روح اللہ‘‘ سے محبت کرنے والے ہوں گے، ان کی محبت نہ نسب اور رشتہ داری کی وجہ سے ہوگی، نہ مال و دولت کے لیے، یہ لوگ تمھارے شیعہ ہوں گے اور اے علی! تم ان کے امام ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 802152
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش