0
Sunday 30 Jun 2019 20:00

پشاور میں سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کرنے کیلئے پولیس فورس تیار

پشاور میں سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کرنے کیلئے پولیس فورس تیار
رپورٹ: ایس علی حیدر

شہر پشاور پھولوں کا شہر۔۔۔جی ہاں ایک دور میں اس شہر کو اسی نام سےموسوم کیا جاتا تھا جیسے کراچی کو "روشنیوں کا شہر" لاہور کو "زندہ دلوں کا شہر" کہا جاتا ہے، کیسے کیسے ستم اس شہر اور صوبے پر ڈھائے گئے مگر غیور عوام نے کسی صورت ہار نہیں مانی، ہار نہ ماننے کی وجہ ہمارے سکیورٹی اداروں کا جاگنا تھا۔ ہمارے سکیورٹی افسر اور اہلکار خود جاگتے اور عوام کو سکون کی نیند کی فراہم کرتے رہے۔ ملک میں شدت پسندی کے خلاف اتنی کارروائیاں ہوئیں کہ تخریبی عناصر کیلئے بھاگنا مجبوری بن گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گزرے برس کے مقابلے میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن جہاں بھی پولیس کا تذکرہ ہو ہر کوئی اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ پولیس کے خلاف بولے۔ اس میں قصور بعض پولیس اہلکاروں کا بھی ہے جو اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اور مسلسل جھوٹ بول بول کر لوگوں کو اپنے خلاف بولنے پر مجبور کر رہے ہیں، تاہم خیبر پختونخوا کی پولیس کا موازنہ ملک کے دیگر صوبوں کی پولیس سے کسی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ خیبر پختونخوا کی پولیس میں جہاں آستین کے سانپ، کرپٹ مافیا، رشوت خور اور پولیس کی بدنامی کا سبب بنے والے عناصر ہیں، وہیں بہت دیانتدار، قابل، فرض شناس اور جذبہ ایمانی سے سرشار افسر و اہلکار بھی موجود ہیں۔ البتہ یہ بات ہرجگہ صادق آتی ہے، اچھے برے انسان ہر جگہ اور ہر شعبہ میں موجود ہوتے ہیں۔

یہ بات ہمارے لئے انتہائی قابل اطمینان امر ہے کہ گذشتہ کئی سال سے مسلسل دہشت گردی، سٹریٹ کرائمز، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر سنگین وارداتوں کا نشانہ بنے والے پھولوں کے شہر پشاور میں اب صورتحال وہ نہیں رہی جو ماضی قریب میں ہوا کرتی تھی۔ اگر کچھ سال پرانی بات کی جائے تو اہل پشاور ذہنی طور مفلوج ہوگئے تھے، آئے روز دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت گردی جیسے حالات سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ کاروبار تباہ اور بچوں کے دو، دو اور تین، تین تعلیمی سال ضائع ہوئے۔ اسی طرح ابھی لوگوں کو وہ دن بھی یاد ہوں گے جب کئی لوگوں نے گھروں سے فالتو نکلنا چھوڑ دیا تھا، مگر کب تک؟ اگر سکیورٹی اداروں نے اپنا کام اسی طرح برقرار کھا تو وہ وقت دور نہیں جب پشاور 100 فیصد پُرامن ہوگا۔ دوسری جانب ایک سوال اس شہر کا ہر باشندہ پوچھ رہا ہے کہ کیا پولیس کا کام صرف شدت پسندوں کے خلاف ہی سرگرم رہنا ره گیا ہے؟ کیونکہ بڑھتے ہوئے جرائم یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس نے اپنا اصل کام چھوڑ دیا ہے۔ ہم نہیں کہتے ہیں شدت پسندی کے خلاف کام چھوڑ دیا جائے، وہ بھی پولیس جوانوں کی ڈیوٹی میں شامل ہے اور شہر میں چوری چکاری و دیگر جرائم کی وارداتوں کی روک تھام بھی بہت ضروری ہے۔

سٹریٹ کرائمز کا بڑھنا خاص طور پر موٹر سائیکل، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاء کا چھیننا اور تھوڑی سی مزاحمت پر قتل عام معمول بن گیا ہے۔ شاید ہی شہر پشاور میں کوئی تھانہ ایسا ہو کہ جہاں یہ وارداتیں روزانہ کی بنیاد پر نہ ہوتی ہوں اور ان کا سامنے نہ آنا بھی تو اسی پولیس کا کمال ہوتا ہے، جو ایف آئی آر کے اندراج سے ہی انکار نہیں کرتی، بلکہ وہ متاثرہ شخص کو ایسا لولی پاپ دے جاتی ہے کہ مدعی کو خود سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ ایس ایچ او، تھانہ محرر یا بیٹ آفیسر کیا ہاتھ کر گیا۔ حقیقت ہے کہ پشاور میں رواں سال یعنی 2019ء میں امن و امان کی صورتحال گذشتہ سالوں کی نسبت بہتر ہے، لیکن قتل و غارت گردی اور سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2018ء میں زر، زن، زمین او دیگر تنازعات پر خواتین و بچوں سمیت 53 افراد کو قتل کیا گیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں رواں سال میں 2019ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران 64 افراد قتل ہوئے۔ اسی طرح اقدام قتل کے 102 واقعات رونما ہوئے۔

حبس بےجا کے 53، بچوں کے اغواء میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی دیکھی گئی اور مجموعی طور پر 20 واقعات پیش آئے۔ خواتین کو بہلا پھسلا کر اغواء کرنے کے 11، زیادتی کے 6 اور پولیس پر 12 حملوں کے کیس ریکارڈ ہوئے۔ ڈکیٹی کا 1، چوری، رہزنی اور نقب زنی سمیت دیگر وارداتوں کی تعداد 60 سے زائد رہی۔ یعنی ان 60 وارداتوں میں شہریوں کو اسلحہ کی نوک پر لوٹا گیا۔ رہزنوں اور ڈاکوؤں نے موبائل، نقدی، طلائی زیورات اور دیگر سامان چھینا۔ اسی طرح مختلف مقامات پر 8 افراد کو گاڑیوں سے محروم کیا گیا، 6 سے اسلحہ کی نوک پر گاڑیاں چھینی گئیں، 17 موٹر سائیکلیں چوری اور 9 سے زائد موٹر سائیکلیں اسلحہ کی نوک پر چھینی گئیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو پولیس کے ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن اصل حقائق اس سے برعکس ہیں، کیونکہ کوئی ایسی جگہ نہیں، سٹرک، گلی محلہ جہاں اسلحہ کی نوک پر شہریوں کو نہ لوٹا گیا ہو۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو کار سرکار میں مداخلت کے واقعات/مقدمات میں 62 فیصد کمی ہوئی۔

سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز اور محکمہ انسداد دہشت گردی کی پیشہ وارانہ کارکردگی کی بدولت دہشت گردی کے مقدمات میں 70 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ گذشتہ سال کی نسبت رواں سال بھتہ خوری واقعات میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسلحہ کے خلاف کامیاب مہم کے دوران گذشتہ سال کی نسبت کئی گُنا زیادہ تعداد میں اسلحہ پکڑا گیا۔ منشیات اور منشیات فروشوں کے خلاف موثر کارروائی کے دوران گذشتہ سال کی نسبت زیادہ تعداد میں ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ دوسری جانب پولیس اور عوام کے درمیان بحالی اعتماد کی بدولت پہلے 3 ماہ کے دوران پولیس اور دیگر سرکاری محکموں پر حملوں میں بھی کمی دیکھی گئی۔ اسی طرح اسلحہ اور گولہ بارود کی مد میں سال رفتہ کے مقابلے میں پشاور پولیس کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے دوران سال رفتہ کے مقابلے میں اسلحہ اور گولہ بارود کی برآمدگی میں بالترتیب 25 فیصد اور 77 اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ چرس، ہیروئن، افیون، آئس اور شراب کی مد میں گذشتہ سال کی نسبت 34 فیصد، 182 فیصد، 17 فیصد، 3506 فیصد اور 75 فیصد زیادہ برآمدگی کی گئی۔

ادھر پشاور پولیس نے قتل، اقدام قتل، اغواء، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم میں مطلوب اشتہاری ملزمان کے خلاف خصوصی مہم کے دوران 1247 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار ہونے والے اشتہاری مجرم گرفتاری سے بچنے کی خاطر عرصہ دراز سے روپوش تھے جن کی گرفتاری کیلئے خصوصی مہم کا انعقاد کیا گیا۔ مہم کے دوران گرفتار اشتہاری ملزمان سے 21 عدد کلاشنکوف، 3 عدد کالاکوف، 301 عدد پستول، 30 عدد شارٹ گن، 2 عدد دستی بم اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف بور کے کارتوس بھی برآمد کر لئے گئے ہیں۔ سی سی پی او پشاور قاضی جمیل الرحمٰن کی ہدایت پر پشاور پولیس نے اقدام قتل، اغوائیگی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث اشتہاری ملزمان کے خلاف خصوصی مہم کا انعقاد کیا۔ خصوصی مہم 15 روز سے زائد تک جاری رہی جس میں تمام ڈویژنل ایس پیز، ایس ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز اور پولیس اہلکاروں نے بھرپور حصہ لیا۔ خصوصی مہم کے دوران عرصہ دراز سے روپوش سنگین جرائم میں ملوث 1247 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے خودکار اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔

گرفتار اشتہاری ملزمان عرصہ دراز سے اپنی گرفتاری سے بچنے کی خاطر روپوش تھے، جن کے خلاف پشاور پولیس نے گذشتہ پندرہ دنوں کے دوران خصوصی مہم کے دوران کارروائیاں کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں خیبر پختونخوا فرنٹ لائن صوبہ ہے، اس جنگ میں پولیس جوانوں کے ساتھ ساتھ پولیس عمارتوں کو بھی بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے تسلسل کے ساتھ نشان بنایا گیا اور صوبے کے تمام اضلاع میں پولیس عمارتوں کو مختلف قسم کے دھماکوں سے اُڑانے کا عمل بار بار دہرایا گیا۔ ایسے حالات میں شورش اور بغاوت کی صورتحال کا مقابلہ کرنے اور 21ویں صدی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے آراستہ فورس کی فوری ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ ان معروضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے خیبر پختونخوا پولیس کی روایتی فورس کو اعلٰی تربیت یافتہ، پیشہ ور پولیس بنانے اور افرادی قوت میں اضافہ کیلئے یکے بعد دیگرے اقدامات اُٹھانا شروع کئے۔

ان میں محکمہ پولیس میں تعمیراتی کاموں کی ضرورتوں کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کیلئے پراجیکٹ کوآرڈنیشن یونٹ (PCU) کا قیام بھی شامل ہے جس کے ذریعے پچھلے چند سال میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں نشانہ بننے والی پولیس تنصیبات کو دوبارہ تعمیر کرنے کے علاوہ پولیس کے موجودہ ناکافی انفراسٹرکچر کو نئی ضرورتوں کے مطابق بنانا ہے۔ اس یونٹ کے تحت متعدد پولیس دفاتر، پولیس اسٹیشنز، پولیس پوسٹیں، پولیس لائنز اور رہائشی کاموں کو مختصر وقت میں تعمیر کرنے کا عمل جاری ہے۔ قبائلی اضلاع سے ملانے والے حصوں پر بم پروف 31 پولیس چوکیاں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں سے 8 چوکیاں تعمیر کی جا چکی ہیں، جبکہ باقی بم پروف چوکیوں پر 97 فیصد کا مکمل ہوچکا ہے۔ پشاور ایئر پورٹ کی فلائٹس فننل (Funnel) ایریا کی نشاندہی کی گئی ہے، 8 مختلف مقامات پر واچ ٹاور تعمیر کئے جا رہے ہیں اور فننل ایریا کو بہت جلد محفوظ بنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ پولیس حکام نے سٹریٹ کرائمز، چوری، رہزنی، ڈکیٹی اور آئے روز بڑھتی ہوئی دیگر وارداتوں کی روک تھام کیلئے خصوصی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ تمام تھانوں کی حدود میں سادہ کپڑوں میں سادہ پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں جو ہر مشکوک فرد پر گہری نظر رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 802186
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش