1
0
Saturday 29 Jun 2019 23:44

مولوی عبدالعزیز کا مسئلہ کیا ہے؟

مولوی عبدالعزیز کا مسئلہ کیا ہے؟
تحریر: نادر بلوچ

دو ہزار سولہ کو میری مولانا عبدالعزیز سے ملاقات ہوئی تھی، جس کا احوال آرٹیکل کی شکل میں لکھا تھا، چند سوالات اور اس کے جوابات کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ شائد علماء کے درمیان رابطے نہ ہونے یا ایک دوسرے کے ہاں نہ آنے جانے کے باعث مولانا عبدالعزیز جیسے افراد سخت گیر بن گئے ہیں، اگر رابطے کیے جائیں اور ایک دوسرے کا موقف سنا جائے تو شائد غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا بہتر ہوسکے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ میرا حسن ظن غلط تھا، میں جو سمجھ رہا تھا، اس کے بالکل ہی الٹ ہوا ہے، مولانا نے اچانک تمام مکاتب فکر کے علماء کے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے اور اس وقت مختلف علماء کرام کو بلاوجہ للکار رہے ہیں، مناظرے اور مباہلے کا چیلنج دے رہے ہیں، خود ساختہ سوالات اٹھا کر دوسروں پر الزامات لگا رہے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ وہ علماء حضرات آکر اِن سے مناطرہ کرلیں۔ مولانا عبدالعزیز حتیٰ مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمٰن کو بھی مسلسل مناظرے اور مباہلے کا چیلنج دے رہے ہیں، وہ بیک وقت مکتب دیوبند کے مدارس کو بھی کھلا چیلنج دے رہے ہیں، جس پر خود مکتب دیوبند سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

مولانا عبدالعزیز مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر دیوبند علماء سے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ وہ آئین و قانون کی حدود میں کیوں رہ کر جدوجہد کرنا چاہتے ہیں یا قوم کو یہ درس کیوں دیتے ہیں؟، کشمیر اور فلسطین میں مظالم ہو رہے ہیں اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ آئین نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، مولانا عبدالعزیز نے اپنے حالیہ خطبے میں ایک مرتبہ پھر آئین پاکستان کو دجالی آئین قرار دیا ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر اعلانیہ فرقہ وارانہ تقریریں کرنا شروع ہوگئے ہیں، انہوں نے علامہ ساجد نقوی کو  بھی کھلا چیلنج دیا ہے اور براہ راست ایک مسلک کا نام لیکر مغلظات کا شکار ہو رہے ہیں، ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، جو زیب قرطاس بھی نہیں کئے جا سکتے، جس پر فوراً ہی ایف آئی آر کٹائی جا سکتی ہے، مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا، الٹا مذاکرات کئے جا رہے ہیں، جامعہ حفصہ کے سوشل میڈیا پیج پر روزانہ کی بنیاد پر ویڈیوز اپلوڈ کی جا رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نفرت آمیز مواد کو شیئر کیا جا رہا ہے، لیکن روکنے والا کوئی نہیں۔

گذشتہ ایک ہفتے سے لال مسجد کے باہر جو صورتحال بنی ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگتا ہے کہ معاملہ ایک مرتبہ پھر کسی نئے امتحان کی طرف جا رہا ہے، جو تشویشناک بات ہے، لال مسجد کے باہر سڑک پر جامعہ حفصہ کی طالبات کی کلاسز لی جا رہی ہیں، انتظامیہ کی جانب سے سڑکیں بند کرنا اور خاموشی اختیار کرنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ لال مسجد آپریشن کے بعد مولانا کو جب رہائی ملی تو انہوں نے سیکٹر جی سیون میں مدرسہ بنا لیا، کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر بھی قبضہ کیا گیا۔ خیر انتظامیہ نے جامعہ حٖفصہ کیلئے ایچ الیون میں بیس کنال کا پلاٹ الاٹ کیا، تاکہ یہ معاملہ حل ہو، لیکن تین ماہ قبل اچانک اس پلاٹ کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی۔ یوں مولانا نے جامعہ کی طالبات کو لال مسجد سے متصل اتوار بازار کے ساتھ چار کمروں میں شفٹ کر دیا ہے اور ظاہر یہ کر رہے ہیں کہ کلاسز چل رہی ہیں، جبکہ جامعہ کی طالبات پہلے ہی جی سیون والے مدرسے میں زیرتعلیم ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا ایچ الیون والے پلاٹ کی منسوخی پر غصے میں ہیں اور یہ سب انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کیلئے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب انتظامیہ نے دو روز پہلے مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات کئے اور ساتھ ہی مولانا عامر صدیق جو ایک معتدل آدمی ہیں، انہیں لال مسجد سے ہٹا دیا ہے، ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے مولانا کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، مولانا عبدالعزیز سے کہا گیا ہے کہ وہ تین ماہ تک اپنا کوئی بندہ مقرر کریں، جو لال مسجد میں نماز پڑھا سکے، بعد میں اسے بھی آہستہ آہستہ لال مسجد کا مکمل کنٹرول دے دیں گے۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں چہ مگوئیاں چل رہی ہیں، یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اچانک الاٹ ہوا پلاٹ کیوں منسوخ کیا گیا اور کس کے ایما پر کیا گیا۔؟ کیا انتظامیہ دوبارہ کوئی نیا سلسلہ کھڑا کرنا چاہ رہی ہے۔؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مولانا اچانک مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کو کیوں مناظرے اور مباہلے کا چیلنج دے رہے ہیں، کیا وہ دوبارہ توجہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں یا نیا محاذ تشکیل دینے کیلئے بساط بچھا رہے ہیں۔؟
نوٹ: 2016ء میں مولانا عبدالعزیز کیساتھ ہونیوالی ملاقات پر لکھے جانیوالے آرٹیکل کا لنک درج زیل ہے؟
https://www.islamtimes.org/ur/article/570883
خبر کا کوڈ : 802210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

طاہر یاسین طاہر
Pakistan
نادر بھائی لال مسجد کا قضیہ بہت پیچیدہ اور دل گیر ہے۔۔ مذہب کے نام پر شدت پسندی کو فروغ دینے مین اس "اڈا" کا کوئی ثانی نہیں۔۔ اصل کھیل لال مسجد، جسے مشرف دور کے آپریشن کے بعد اسلام آباد مسجد کا نام دیا گیا تھا۔ ایک بار پھر اس کی انتظامیہ اپنا "ریونیو" بڑھانے کے لیے مذہبی کارڈ پہلے سے جارحانہ انداز میں استعمال کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔۔ کیا بعید کہ اس گروہ کو عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی طرف سے کچھ اشارے بھی ملے ہوں، کیونکہ جامعہ حفصہ کی طالبات کی ویڈیو موجود ہے، جس میں وہ داعش درندوں کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہی ہیں۔۔۔ یہاں اس مرحلہ پر بالخصوص انتظامیہ کی معمولی سی بھی کوتاہی یا دانستہ چشم پوشی سماج کو ایک نئے بحران کا شکار کر دے گی۔۔۔
ہماری پیشکش