1
Sunday 30 Jun 2019 00:13

لیبیا، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پراکسی وار

لیبیا، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پراکسی وار
تحریر: فاطمہ صالحی

لیبیا میں کچھ عرصے سے جاری خانہ جنگی نیا رخ اختیار کر گئی ہے۔ اب یہ جنگ محض خلیفہ حفتر کی کمان میں قومی فوج اور فائز السراج کی سربراہی میں قومی حکومت کے درمیان محدود نہیں رہی بلکہ حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وسعت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اب لیبیا میں جاری جنگ صرف طاقت کی جنگ نہیں بلکہ اس کے ایک طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جبکہ دوسری طرف ترکی قرار پا چکا ہے اور لیبیا ان ممالک کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ اب تک لیبیا کی نیشنل آرمی کے کمانڈرز کئی بار ترکی کو دھمکیاں دے چکے ہیں لیکن حال ہی میں یہ دھمکیاں اس وقت نیا رخ اختیار کر گئیں جب نیشنل آرمی کے ترجمان احمد المسماری نے لیبیا کی سمندری حدود میں داخل ہونے والی ترکی کے جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے لیبیا کی نیشنل آرمی کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
 
لیبیا کی نیشنل آرمی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ملک میں موجود ترکی کے شہریوں کی گرفتاری کا حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ لیبیا کی سرزمین ترکی کے قبضے میں جا چکی ہے کہا کہ ملک کا جو حصہ بھی ترکی کے اثرورسوخ میں ہو گا وہاں حملہ کیا جائے گا۔ المسماری نے کہا کہ نیشنل آرمی نے لیبیا کی فضائی حدود سے ترکی کی تمام پروازوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ انہوں نے کہا: "ہم ترکی کے ہر اس جہاز کو دشمن کے طور پر نشانہ بنائیں گے جو طرابلس میں لینڈنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو گا۔ انقرہ نے قومی حکومت کی فورسز کو غریان شہر میں داخل ہونے کیلئے ڈرون طیاروں کی مدد سے تعاون فراہم کیا ہے۔" نیشنل آرمی ترکی اور قطر پر اپنی مخالف قومی حکومت کے سربراہان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ دوسری طرف لیبیا کی صدارتی کونسل کے سربراہ فائز السراج جنہیں بین الاقوامی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر جنرل حفتر کی فورسز کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے۔
 
لیبیا کی نیشنل آرمی کے ترجمان المسماری کے حالیہ بیان کو ترکی کے خلاف شدید ترین ردعمل قرار دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں قومی حکومت کی فورسز نے غریال شہر کو نیشنل آرمی کے قبضے سے آزاد کروایا ہے۔ قومی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ انہیں اس شہر میں بڑی مقدار میں متحدہ عرب امارات سے سپلائی ہونے والا اسلحہ ملا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ Javelin نامی ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل امریکی ساختہ ہے جو متحدہ عرب امارات کو فروخت کئے گئے تھے۔ غریان سے ملنے والے اسلحے میں اس قسم کے میزائل بھی دیکھے گئے ہیں۔ مارچ میں لیبیا کی نیشنل آرمی کے سربراہ جنرل حفتر نے سعودی عرب اور امریکہ کی شہہ پر طرابلس کی جانب پیشقدمی کا آغاز کر دیا تھا جس کا مقصد قومی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔ جنرل حفتر کا یہ اقدام انتہائی عجیب تھا کیونکہ اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی عالمی اداروں کی سرپرستی میں قومی حکومت اور نیشنل آرمی کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک امن معاہدہ طے پا چکا تھا۔
 
لیبیا میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ سعودی عرب لیبیا میں مصر کی طرز پر ایک کٹھ پتلی آمرانہ حکومت برسراقتدار لا کر براعظم افریقہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیبیا میں آزاد سوچ کی حامل ایک سویلین حکومت سعودی عرب کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب ایک طرف تو طرابلس میں حکمفرما قومی حکومت کو تسلیم کرنے کا دعوی کرتا ہے جبکہ دوسری طرف باغی فوجی کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر سے بھی رابطے میں ہے اور اسے فوجی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اگر جنرل حفتر کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شہہ اور حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ ہر گز طرابلس کی جانب پیشقدمی کی جرات نہ کرتا۔ اس وقت لیبیا میں سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پراکسی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس کا ملبہ عام عوام پر گر رہا ہے۔ اب تک اس خانہ جنگی کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 802243
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش