1
0
Sunday 30 Jun 2019 08:57

دین ملا فی سبیل اللہ فساد

دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اداریہ
پاکستان کے ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ فتویٰ باز مولوی ہیں، ان کا مزید کہنا تھا تمام طبقہ فکر کو اس رویئے کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے۔ لا الہ الا اللہ کے نعرے اور دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ہندوستان سے الگ ہونے والے ملک میں ایک وفاقی وزیر کا بیان اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن پورے پاکستان میں اس کے جواب میں ردعمل نہ آنا اس سے بھی بڑی خبر ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر کے اس بیان میں کتنی صداقت ہے، اس پر کچھ رائے دینے سے پہلے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بعض "علماء نما" ملاؤں نے اسلام کا اس بری طرح استحصال کیا ہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ اسلام سے شدید عقیدت رکھنے کے باوجود علماء کے دفاع میں آواز نہیں اٹھاتا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دین اور سیاست کو جدا سمجھنے والا چنگیزیت کا قائل ہوتا ہے، لیکن ضیاء آمریت کے بعد فرقہ پرست علماء کو جس طرح پاکستانی سیاست میں داخل کیا گیا اور ملک بھر میں کافر کافر اور مارو مارو، قتل کرو کے نعرے بلند ہوئے تو دین اسلام اور پاکستانی معاشرے کے نبض شناس ماہرین نے برملا کہنا شروع کیا تھا کہ انتہا پسند ملاؤں کو سیاست میں لانے کا نتیجہ اسلام اور علماء سے پاکستانی عوام کی دوری پر منتج ہوگا۔

پاکستان کی نامرئی قوتوں نے فرقہ پرست انتہا پسندوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کے لئے عسکری میدان میں داخل کیا۔ مدارس اور مساجد کے ان علماء کو جہاد کے نام پر افغانستان اور کشمیر میں استعمال کیا اور ان کی سیاسی و مالی مدد کرکے اس مقام پر پہنچا دیا کہ اب وہ سیاست، ثقافت، اقتصاد اور اقتدار میں اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ انتہاء پسند مدارس کے ان ملاؤں نے اس دوران بیوروکریسی میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ووٹ بینک سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو کافی دیر بعد اس بات کا احساس ہوا کہ جن سانپوں کو دودھ پلا کر پالا گیا تھا وہ صرف آستین کے نہیں بلکہ ترقی و پیشرفت کے راستے کے ناگوں اور اژدھوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان نام نہاد علماء کی وجہ سے حقیقی علماء ربانی بھی عوامی و اجتماعی نفرت کا شکار ہو رہے ہیں۔

بات مسجدوں پر قبضے یا رویت ہلال پر اختلاف تک رہتی تو شاید کسی حد تک قابل قبول تھی، لیکن آج ان نیم ملاؤں اور انتہاء پسند مولویوں نے پاکستانی معاشرے کو نئے نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔ علماء ربانی جنہیں معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہیئے تھا، وہ اسلام کی بجائے اسلام آباد پر نظریں گاڑھے ہوئے ہیں۔ علماء جنہیں طاغوت اور استعمار کے خلاف قرآنی احکامات کو امت مسلمہ تک پہنچانا تھا، آج امریکہ و سامراجی طاقتوں کے دروازوں پر جا کر اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ وہ علماء جنہیں تقویٰ و پرہیز گاری کا مثالی نمونہ ہونا چاہیئے تھا، آج مالی، جنسی، بدعنوانی اور تحریف و خرافات کے اسکینڈلوں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اسلامی معاشرے حسن البناء، جمال الدین افغانی، امام خمینی، شہید حسینی اور سید علی خامنہ ای جیسے علماء حق کے منتظر ہیں۔
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
(علامہ اقبال)
خبر کا کوڈ : 802251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سیدہ زہرا
Pakistan
پرودگار زور قلم میں اضافہ فرمائے (آمین) پاکستانی معاشرہ متاسفانہ تیزی سے نام نہاد ماڈرنزم کی طرف جا رہا ہے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کس نے کیا کہا۔۔۔۔۔نام نہاد ملاؤں کیساتھ ساتھ سیاستدانوں نے بھی پاکستان کو کیا دیا؟؟؟؟ اور عوام بھی اپنی جگہ مقصر ہے، غلط فیصلوں کو تسلیم کر لینا عوام کی کمزوری اور کم علمی کو ظاہر کرتا ہے۔۔۔جو ملک اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا، وہاں اسلام کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، جس میں میڈیا کا کردار سب سے نمایاں ہے۔
ہماری پیشکش