0
Monday 1 Jul 2019 11:20

افغان۔۔۔۔۔ ہمارے بھائی یا دشمن؟؟

افغان۔۔۔۔۔ ہمارے بھائی یا دشمن؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کے دوران جو کچھ ہوا، افسوسناک، تشویشناک اور قابل توجہ ہے۔ پاکستانی شائقین پر تشدد، پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش اور جہاز کے ذریعے متنازع بینر لہرانے کا معاملہ نہ ہی سادہ ہے اور نہ ہی اتنا غیر اہم کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے، بلکہ یہ بھارت کے خبثِ باطن کا اظہار تھا۔ میچ کے دوران پاکستان مخالف نعرے لگتے رہے۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان مخالف کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ بھارتی ٹیم کی تربیت بھی ان خطوط پر کی جاتی ہے کہ کیسے پاکستان کو بدنام کرنا ہے یا پاکستان کی تذلیل کرنی ہے۔ بھارتی کھلاڑیوں کے رویئے سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی کوچنگ روی شاستری نہیں بلکہ "را" کا کوئی کمانڈر کرتا ہے۔ پاک افغان میچ کے دوران جو کچھ ہوا، اس کا سارا الزام افغانیوں پر بھی نہیں دھرا جا سکتا۔

سوشل میڈیا پر ہر پاکستانی اس صورتحال کا ذمہ دار افغانیوں کو قرار دے کر "نمک حرام" اور "ہماری بلی ہمیں ہی میاوں" اور ان سے ملتے جلتے جملوں کے طعنے دے رہا ہے، جبکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان نے سعودی عرب کے ایماء پر یمن فوج بھیجنے سے انکار کیا تو عرب سوشل میڈیا پر پاکستان کیخلاف ایسی ہی ایک تحریک شروع ہوگئی تھی۔ عربوں نے پاکستان کے اس "انکار" پر اِسے خوب لتاڑا تھا۔ عرب عوام نے ہی نہیں بلکہ حکمرانوں نے بھی بہت کچھ کہا تھا۔ یہاں تک کہا گیا کہ "ہمارا دست نگر پاکستان انکار کی جرات کیسے کر سکتا ہے" عربوں کے اس رویئے نے بھی پاکستان کو بہت افسردہ کیا تھا۔ مگر حالات نے یہ منظر دیکھا کہ پاکستان نے اپنی پالیسی پر عمل کیا اور یمن فوج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ البتہ کھلے دل سے عربوں کے طعنے ضرور برداشت کر لئے۔

اب پاکستانی عوام کی طرف سے افغانیوں کے خوب لتے لئے جا رہے ہیں۔ منافق اور غدار تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ افغانیوں میں بھی کچھ غدار اور منافق پیدا ہوگئے ہیں، جو "را" کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، جبکہ افغانیوں کی اکثریت آج بھی پاکستان سے ویسی ہی محبت کرتی ہے، جیسی سوویت یونین کی بربادی سے پہلے کرتی تھی۔ افغانستان کا پاکستان کیساتھ جغرافیائی تعلق ایسا ہے کہ وہ ہم سے الگ ہو ہی نہیں سکتے۔ ہاں وہ ایک ملک ہے، اس کی اپنی خود مختاری ہے، اس کا اپنا آئین اور قانون  ہے۔ ہم اس کے ساتھ یہ رویہ نہیں رکھ سکتے کہ ہم نے ہی انہیں قدموں پر کھڑا کیا، ہم نے ہی چلنا سکھایا، ہم نے ہی یہ کیا اور ہم نے وہ کیا، اب افغانستان ہمارے سامنے بغیر چوں چراں ہماری ہر بات پر سرِ تسلیم خم رکھے، تو یہ ہماری سوچ غلط ہے۔ اس سوچ کو ہی بنیاد بنا کر بھارت کو افغانستان میں پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔ افغانوں کیساتھ ہمارا تعلق برابری اور مساوات کے اصولوں پر ہونا چاہیئے، افسوس کہ یہ تعلق قومی اور گروہی مفادات سے بندھا ہے۔ مہاجرین کو پناہ دینے کا احساس جتلایا جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سوویت یونین کیخلاف نام نہاد جہاد ہمارے حکمرانوں نے شروع کیا تھا، یہ جہاد جنرل ضیاء الحق نے اپنی ضرورت اور امریکہ کی خوشنودی کیلئے شروع کیا تھا۔ اس جنگ کے ثمرات تو حکمرانوں نے سمیٹے اور نتائج بھگتنے کیلئے عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔

میچ کے دوران جو کچھ ہوا، وہ غلط تھا، لیکن اس کے ردعمل میں پاکستانی نوجوان سوشل میڈیا پر جو کچھ کر رہے ہیں، اِسے بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے میچ کے دوران ہونیوالی بدمزگی اور متنازع بینر کا معاملہ سفارتی سطح پر اٹھا دیا ہے۔ پاکستان نے آئی سی سی اور برطانوی حکومت سے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی درخواست کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے اس مہم کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ پاکستان نے کہا کہ کھیل کے میدان کو مکروہ پروپیگنڈے کیلئے استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کبھی بھی کشمیر کا مسئلہ اور خالصتان کا ایشو کھیل کے میدان میں نہیں لایا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی جب ایک دوسرے کیساتھ کھیلتے ہیں تو کھیل کو بطور کھیل ہی لیتے ہیں۔ ان کے تماشائی جنگی ماحول بناتے ہیں اور نہ ہی ہار جیت کی صورت میں ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں۔ پاک افغان میچ میں "را" اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ نے میچ کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ پی سی بی کو بھی اس معاملے پر اب خاموش نہیں رہنا چاہیئے، تاکہ ایسے ناسور کو ابتداء میں ہی ختم کر دیا جائے، اس فتنے کو ابتداء میں ہی لگام نہ ڈالی گئی تو اس کے اثرات خطرناک ہوں گے۔

افغان جہاد کے بعد جو نتائج افغانیوں نے بھگتے ہیں، اس میں مغرب نے اندھا دھند ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار ہی پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ اس حوالے سے پاکستان کے موقف کو دبا دیا گیا۔ پاکستان کی طالبان کیساتھ قرابت نے اسے افغانیوں کیلئے اجنبی بنا دیا اور بھارت نے انتہائی کامیابی کیساتھ اس کارڈ کو استعمال کیا۔ افغانستان میں 180 سے زائد ایف ایم ریڈیو ہیں، 75 ٹی وی چینلز ہیں۔ اخبارات و رسائل بھی سیکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اطلاعات تک رسائی کا اہم ترین ذریعہ بن چکا ہے، اس سارے منظر نامے میں انڈیا نے اپنی جگہ بنائی اور خوب سازش کرکے پاکستان کے حوالے سے افغانیوں کی سوچ بدل ڈالی۔ کابل میں آج بھی کوئی ایک بھی پاکستانی صحافی موجود نہیں، ان کے میڈیا میں ہمارا کوئی اثر و رسوخ نہیں، افغانیوں کی فکری اور مالی سپورٹ انڈیا کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان میڈیا رائے عامہ کو پاکستان مخالف بنانے میں پیش پیش رہا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس گیپ کا ادراک کرتے ہوئے کابل کیساتھ روابط بڑھائے ہیں۔ اب کابل کیساتھ اسلام آباد کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ یہ خلا ہمیں پہلے دن سے ہی پیدا نہیں ہونے دینا چاہیئے تھا، مگر کیا کریں کہ ہمارے ہاں بھی جب تک واشنگٹن سے ڈالر آتے رہے، ہم افغانستان میں فعال رہے، اُدھر سے امداد بند ہوئی تو اِدھر ہم نے بھی افغانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ اسی خلا کا انڈیا نے فائدہ اٹھایا اور آج صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ افغانی عوام پاکستانیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے جنرل باجوہ کی کوششوں سے حالات بہتری کی جانب چل تو پڑے ہیں، جس کا نتیجہ افغان صدر کا حالیہ دورہ پاکستان بھی ہے اور مستقبل میں بھی امید کی جا سکتی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے گی، لیکن ہمیں وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیئے کہ وہ ہمارے افغان بھائیوں کو ہمارے قریب لائے، ہم سے دُور نہ کرے۔ کیونکہ دُوریاں ہی مسائل کو جنم دیتی ہیں، جبکہ قربتیں مسائل حل کرتی ہیں۔ اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم نے افغانیوں کو سینے سے لگانا ہے یا اپنا دشمن بنانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 802434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش